بھارت میں دریائے گنگا کو بے حد عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہندو اسے گنگا ماں کہتے ہیں اور اس کی پوجا تک کرتے ہیں۔ گنگا جل کو نہایت متبرک مانا جاتا ہے اور عقیدت مند گنگا میں نہانے کو باعث ثواب سمجھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چند خاص مواقع پر گنگا میں ڈبکی لگانے سے عمر بھر کے پاپ دھل جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جسم میں خون منجمد کر دینے والی سردیوں کے باوجود 20 لاکھ سے زیادہ زائرین نے دو ہفتے قبل گنگا اشنان کیا۔
ہندو عقیدت مندوں کے گنگا کے متعلق ان خیالات کے برعکس ماہرین ماحولیات اور معتبر عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ گنگا دنیا کا غلیظ ترین دریا ہے۔ دہرہ دون میں واقع پیپلز سائنس انسٹی ٹیوٹ کے مطابق گنگا میں نہانے سے طرح طرح کے عارضے لاحق ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ گنگا کا پانی بالکل آلودہ ہو چکا ہے۔
سنکٹ موچن فاؤنڈیشن نام کے ایک غیر سرکاری ادارے کے سربراہ ڈی کے سنڈ کے مطابق انسانوں اور مویشیوں کے فضلے، کارخانوں کی غلاظتیں اور دیگر گندگیاں دریا میں پھینکے جانے کے سبب گنگا اس قدر آلودہ ہو چکا ہے کہ اس کا پانی پینا تو در کنار اس پانی سے ہاتھ منہ دھونا بھی خطرے سے خالی نہیں۔
گنگا ہمالیہ سے نکلتا ہے اور ڈھائی ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے خلیج بنگال میں جا گرتا ہے۔ سنڈ کے مطابق اس طویل سفر کے دوران اس کے کنارے بسے ہوئے دو درجن سے زیادہ شہروں کی غلاظتیں اس کے پانی کو زہر آلودہ کر دیتی ہیں۔
اتر پردیش کے کانپور شہر کی مثال لے لیں۔ اس شہر میں چمڑے کے سینکڑوں کارخانے ہیں۔ چمڑے کی اتنی بڑی صنعت سےہر روز پیدا ہونے والی غلاظتوں سے گنگا کے پانی کا آلودہ ہونا ناگزیر ہے۔
اس کے علاوہ گنگا کے ساحلوں پر ہر جگہ شمسان گھاٹ قائم ہیں جہاں مردے جلائے جاتے ہیں جن کی راکھ کو پانی میں بہا دیا جاتا ہے اور اکثر ادھ جلی لاشیں بھی دریا میں بہا دی جاتی ہیں۔
حکومت کے ساتھ ساتھ کئی غیر سرکاری تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے بھی گنگا کی کثافت دور کرنے کی مہم میں شامل ہو گئے ہیں۔ بنارس میں اتوار کے دن لاکھوں لوگوں نے گنگا بچاؤ ریلی میں حصہ لیا۔
دریں اثنا ورلڈ بینک کا ا یک وفد ان دنوں اتر پردیش اور بہار سمیت ان تمام صوبوں کا دورہ کر رہا ہے جہاں سے ہو کر دریائے گنگا بہتا ہے۔ اس دورے کا مقصد ہے گنگا کی آلودگی کی سطح کا تخمینہ لگانا۔ عالمی بینک گنگا کی صفائی کے لیے ایک ارب ڈالر کا فنڈ فراہم کرنے پر تیار ہو گیا ہے۔