بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے زیادہ تر علاقوں میں 50 دن سے زائد عرصے سے نافذ کرفیو پیر کو اٹھا لیا گیا جس کے بعد روزمرہ کے معمولات زندگی آہستہ آہستہ بحال ہونا شروع ہو گئے۔
تاہم سری نگر کے بعض علاقوں اور پلوامہ ضلع کے کئی مقامات میں اب بھی کرفیو نافذ ہے۔
گزشتہ ماہ کے اوائل میں ایک کشمیری علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاکت کے بعد بھارتی کشمیر کے کئی علاقوں میں مظاہرے اور جھڑپیں شروع ہو گئیں، جس کے بعد حکام نے کرفیو نافذ کر دیا۔
اس دوران بھارتی سکیورٹی فورسز بھارتی کشمیر میں گزشتہ چھ سالوں کے دوران ہونے والی شدید ترین شورش پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہی۔
وڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5
پیر کو کشمیر کے زیادہ تر علاقوں میں نافذ کرفیو میں نرمی کے بعد سڑکوں پر ٹریفک دیکھی گئی اور کئی لوگ اپنے گھروں سے باہر آئے۔
تاہم اب بھی بھارتی کشمیر میں دفعہ 144 کا نفاذ جاری ہے جس کے تحت دس یا دس سے زائد افراد کے اکھٹے ہونے پر پابندی عائد ہے۔
دوسری طرف پولیس اور سکیورٹی اہلکار شہر میں ہونے والی نقل و حرکت پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 70 افراد ہلاک جب کہ چھ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ ان میں زیادہ تر افراد سکیورٹی فورسز کی طرف سے استعمال کی گئی ’پیلٹ گن‘ سے زخمی ہوئے۔
بتایا جاتا ہے کہ لگ بھگ ایک ہزار افراد کو چھرے والی بندوق ’یعنی پیلٹ گن‘ کے استعمال کی وجہ سے آنکھ کے زخم آئے، جس کی وجہ سے حکومت کے خلاف عوامی غم و غصہ میں اضافہ ہو گیا۔
اس دوران ہونے والے تشدد کے واقعات کے نتیجے میں ساڑھے چار ہزار سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور بھارتی کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی عوام کو پرامن رہنے کہ اپیل کر چکی ہیں۔
کشمیر روز اول ہی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے جس سے جنوبی ایشیا کے دو ہمسایہ جوہری ملکوں کے درمیان کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی موجودہ صورت حال پر اسلام آباد کی تشویش اور مذمت کے بعد، پاکستان اور بھارت کے پہلے سے کشیدگی تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔
پاکستان بھارت کو کشمیر کے معاملے پر بات چیت کے لیے بھی دعوت دے چکا ہے تاہم فی الحال بھارت اس پر رضامند دکھائی نہیں دیتا ہے۔