کشمیر: علیحدگی پسند رہنماؤں کی سکیورٹی واپس لینے کا فیصلہ

(فائل فوٹو)

بھارت کے زیر انتظام کشیمر کے مختلف علاقوں میں کشمیریوں کی املاک پر حملوں کے خلاف کشمیر میں مکمل ہڑتال ہوئی جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سرینگر تحقیقات کے لیے حراست میں لئے گئے افراد سے پوچھ گچھ۔ ہوئی۔

جمعرات کو بھارت کے نیشنل سکیورٹی گارڈز (این ایس جی) کے ماہرین اور قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے ) کے تحقیقات اہلکاروں نے سرینگر کے قریب واقع لیتہ پورہ علاقے میں اُس جگہ کا معائنہ کیا ہے جہاں جمعرات کو حملہ ہوا تھا۔

اس حملے میں بھارت کے وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے تقریباً 50 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

پولیس ذرائع کے مطابق تحقیقات میں اگرچہ اب تک کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی ہے لیکن آئندہ چند روز میں سراغ ملنے کی توقع ہے۔

اس دوران خود کش حملے میں ہونے والے بھاری جانی نقصان کے خلاف بھارت میں پیدا شدہ شدید غم و غصے کے بیچ ملک کے محتلف حصوں میں کشمیری تاجروں اور طالب علموں پر مقامی افراد کی طرف سے حملے اور ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

بھارت کے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے گزشتہ روز یہ اعلان کیا تھا کہ کشمیریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ہر ضروری قدم اٹھایا جائے گا۔

خود بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ہندو اکثریتی جموں علاقے میں جہاں اتوار کو لگاتار تیسرے دن بھی کرفیو نافذ ہے بلوائیوں نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

ہفتے کی رات کو بلوائیوں نے شہر کے کم سے کم تین علاقوں میں پتھراؤ کیا اور مسلمانوں کی املاک پر حملے کئے جس کے جواب میں مسلمانوں نے بھی اُن پر سنگباری کی اور نعرہ بازی کی۔ عہدیداروں نے بتایا کہ ہندو مظاہرین کی نعرہ بازی کے جواب میں مسلمانوں نے اُن کے بقول قابلِ اعتراض نعرے لگائے جس سے تناؤ میں اضافہ ہوا۔

چند مقامات پر پولیس اور دوسرے حفاظتی دستوں پر پتھراؤ کرنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں سے کہا ہے کہ وہ بلوائیوں اور شرپسند عناصر کے ساتھ سختی سے نپٹ لیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی علاقے یا فرقے سے ہو۔

جموں میں پیش آئے واقعات اور بھارت کے مختلف حصوں میں کشمیری مسلمانوں پر کئے جا رہے حملوں یا انہیں ہراساں کرنے کے واقعات کے خلاف اتوار کو مسلم اکثریتی وادئ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی جا رہی ہے۔ ہڑتال کے لئے اپیل مختلف تاجر انجمنوں نے دی تھی۔

علیحدگی پسند رہنماؤں کی سکیورٹی واپس لینے کا حکم

ادھر اتوار کو ریاستی انتظامیہ نے ایک حکم نامہ جاری کر کے استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والے پانچ سرکردہ لیڈروں کو فراہم کیا جانے والا سکیورٹی کور واپس لے لیا ہے۔ ان رہنماؤں کے گھروں میں تعینات پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی پولیس محافظوں کو اتوار کی شام تک ہٹایا جا رہا ہے۔

ایک اہم عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان لیڈروں کی سکیورٹی تفصیلات میں شامل گاڑیاں اور انہیں فراہم کی گئی دوسری سہولیات بھی واپس لی جا رہی ہیں اور آئندہ انہیں کسی بھی بہانے یا عذر کی آڑ میں سکیورٹی فراہم نہیں کی جائے گی۔ عہدیدار نے بتایا کہ پولیس استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے اُن دوسرے لیڈروں اور سرکردہ کارکنوں کو فراہم کئے گئے سکیورٹی کور کو بھی واپس لینے کے معاملے کا جائزہ لے رہی ہیں جن کے نام اتوار کو جاری کئے گئے حکم نامے میں شامل نہیں ہیں۔

واضح رہے بھارت کے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے جمعرات کو سرینگر کے قریب کئے گئے خود کُش حملے سے پیدا شدہ صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد سرینگر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت اُن علیحدگی پسند لیڈروں کو فراہم کردہ سکیورٹی کو واپس لینے پر غور کرے گی جنھیں اُن کے بقول پاکستان سے رقومات مل رہی ہیں اور جن کے اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط ہیں۔

جن لیڈروں کی سکیورٹی واپس لی گئی ہے ان میں میر واعظ عمر فاروق، شبیر احمد شاہ، پروفیسر عبد الغنی بٹ، بلال غنی لون اور ہاشم قریشی شامل ہیں۔ اس استفسار پر کہ شبیر شاہ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے دِلّی کی تہاڑ جیل میں بند ہیں ایک عہدیدار نے وضاحت کی کہ پولیس اہلکاروں کی ایک جمعیت سرینگر میں ان کے گھر کی حفاظت پر مامور ہے۔ تاہم شبیر شاہ کی جماعت جموں و کشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے حکومت کے فیصلے کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے انہیں کبھی سکیورٹی فراہم کی گئی تھی اور نہ ان کے گھر پر کوئی پولیس محافظ تعینات تھا۔

میر واعظ عمر نے سکیورٹی واپس لینے کے حکومت کے فیصلے پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ "میں اپنے تناظر میں بات کروں تو 1990ء میں میرے والد کو شہید کئے جانے کے بعد حکومت نے از خود میرے گھر پر پولیس محافظ تعینات کئے اور مجھے بھی چند ذاتی محافظ فراہم کئے۔ میں نے اس پر اعتراض کیا تو عہدیداروں نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا میرا نہیں بلکہ پولیس کا کام ہے"۔

انہوں نے مزید کہا "اب حکومت نے از خود سکیورٹی واپس لے لی ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ سکیورٹی فراہم کرنے کا فیصلہ ان کا تھا اور اسے واپس لینے کا فیصلہ بھی اُن ہی کا ہے۔ ہمیں اس کی ضرورت تھی اور نہ اسے واپس لینے سے ہماری سرگرمیوں پر کوئی اثر پڑے گا۔ میں یہ بھی واضح کر دوں کہ ہم کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے اپنے مطالبے سے کسی بھی صورت میں دستبردار نہیں ہوں گے"۔

دریں اثناء پولیس نے بتایا کہ متنازعہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی کے نوشہرہ (ضلع راجوری) کے علاقے میں ہفتے کو ہوئے بارودی سرنگ کے ایک دھماکے میں بھارتی فوج کا ایک میجر چتریش بشٹ ہلاک اور ایک سپاہی زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق فوجی افسر ’’دشمن‘‘ کی طرف سے سرحدی علاقے کے ایک راستے پر بچھائی گئی بارودی سرنگ کو ناکارہ بنانے کے اسکواڈ کی قیادت کر رہے تھے۔ یہ بارودی سرنگ اس عمل کے دوران اچانک پھٹ گئی اور اس میں فوجی افسر اور سپاہی شدید طور پر زخمی ہو گئے ۔ بعد میں میجر بشٹ اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔