بھارت میں صحافیوں پر مقدمات: 'آئینہ تو وہی دکھائے گا جو اصل ہے'

  • قمر عباس جعفری

فائل

بھارت میں صحافیوں کے خلاف حکومتی پالیسیوں پر صحافی برادری کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے، جہاں صحافیوں کے خلاف مبینہ گمراہ کن رپورٹنگ جیسے الزامات میں مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔

پاکستان میں کیا صورت حال ہے اس بارے میں بھارت کے صحافی کس انداز میں سوچتے ہیں۔ ہم نے ایک سینئر بھارتی اور ایک سینئر پاکستانی صحافی سے بات کی۔

بھارت کی پریس کونسل کے سابق رکن اور پریس ایسوسی ایشن کے صدر جے شنکر گپتا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''سرکار کوئی بھی ہو، بھارت کی ہو یا پاکستان کی وہ مخالفت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے''۔

انہوں نے کہا کہ ''آپ ان کی مرضی کے خلاف بات کریں تو وہ آپ پر کوئی بھی چھاپ لگا کر آپ کے خلاف کارروائی کے لئے تیار ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں ایک ڈیڑھ سال سے میڈیا سخت پابندیوں کی زد میں ہے اور اب ملک کے دوسرے حصوں میں بھی یہی صورت حال بن رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''ملک میں نہ کوئی سنسرشپ ہے نہ کوئی ایمرجنسی۔ لیکن، غیر اعلانیہ طور پر یہ دونوں چیزیں جاری ہیں''۔ بقول ان کے، ''حکمران اپنی شکلوں کے بجائے آئینے کو الزام دیکر اسے توڑنا چاہتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ آئینہ تو وہی دکھائے گا جو اصل ہے''۔

انھوں نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ بس اس کی ہاں میں ہاں ملائی جائے۔

تاہم، شنکر گپتا نے کہا کہ بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ بیشتر میڈیا یہی کر رہا ہے اور ونود دوا جیسے صحافی جن کے خلاف مقدمہ دہلی میں درج کیا گیا ہے، ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں تو ان کے خلاف کارروائیاں ہوتی ہیں۔ اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ رپورٹر وداوٹ بارڈرز کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق آزادی صحافت کے لحاظ سے بھارت کا نمبر اور نیچے آکر 142 پر پہنچ گیا ہے، جبکہ پاکستان اس سے بھی تین نمبر کم ہو کر 145 پر آگیا ہے اور بنگلہ دیش 151 نمبر ہر ہے۔

جے شنکر گپتا نے کہا کہ ''آج کے حکمران جب اپوزیشن میں تھے تو سنسر شپ کی مخالفت کرتے تھے اور اقتدار میں آکر خود وہی کام کر رہے ہیں۔ آج اخبارات کے صفحے کم ہو رہے ہیں۔ صحافیوں کو ملازمتوں سے نکالا جا رہا ہے، مگر صحافی اپنا دفاع کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں''۔

پاکستان کے ایک ممتاز صحافی اور کالم نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا اس بارے میں کہنا تھا کہ بھارت میں اب تک پریس جس طرح پاکستان کے مسئلے پر یا حکومت کی ایک بہت مثبت امییج پیش کرنے کا کام کرتا رہا ہے۔ لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا، کیونکہ اب صورت حال بدل گئی ہے اور آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں، اور اب پریس کو لوگوں کے جاننے کے حق یا حکومت کی خواہشات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے پریس کے لئے یہ ایک مشکل صورت حال ہے، کیونکہ، بقول ان کے، ''جب اپنے مفادات کے لئے پریس حکومت پر انحصار کرتا ہے تو لہروں کی مخالف سمت تیرنے کے لئے اسے بہت کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے''۔