بھارتی کشمیر کے بعض علاقوں سے فوج کو خصوصی اختیارات دینے والے متنازعہ ایکٹ کی مجوزہ واپسی کا تنازع اب بھی برقرار ہے۔
فوج نے پہلے ہی فیصلے کی مخالفت کی ہے اور اب آرمی چیف جنرل وِی کے سنگھ نے کہا ہے کہ یہ معاملہ مرکزی وزارتِ داخلہ کے دائرہ اختیار میں ہے اور فوج نے اِس بارے میں تمام تفصیلات اُس کے گوش گزار کردیے ہیں۔
گذشتہ دِنوں وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ کے اِس اعلان سے کہ بعض علاقوں سے مسلح افواج کو خصوصی اختیارات ایکٹ واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ایک تنازعہ اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔
اِس اعلان کے بعد سری نگر میں متعدد گرینیڈ حملے ہوئے جِس کے بعد حکمراں نیشنل کانگریس نے سرپرست اور سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبد اللہ کے بھائی مصطفیٰ کمال کے اِس بیان سے کہ اِن حملوں کے پیچھے، بقول اُن کے، بھارتی افواج کا ہاتھ ہے، اِس تنازعے کو مزید ہوا مل گئی ہے۔
آرمی چیف جنرل وِی کے سنگھ سے جب اِس سلسلے میں جمعرات کے روز نئی دہلی میں پوچھا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ جِس نے بھی یہ بیان دیا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ یہ اِس لائق ہے کہ اِس پر میں کوئی تبصرہ کروں۔
اُنھوں نےمزید کہا کہ وزارتِ داخلہ ایکٹ کی واپسی کے اعلان کے بعد کی صورتِ حال پر غور کر رہی ہے، ’اور، ہم نے اپنی رائے اِس پر دے دی ہے۔ میں اِس پر کچھ زیادہ کہنا نہیں چاہتا‘۔
کشمیر کانگریس کے صدر پروفیسر سیف الدین سوز نے عمر عبد اللہ پر تنقید کی ہے کہ اُنھوں نے ایکٹ کی واپسی کے اعلان سے قبل اُن کی پارٹی سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔