بھارت میں خواتین کو اقتدار اور دیگر کلیدی اداروں میں حصہ داری دینے کی آوازیں ایک عرصے سے اٹھتی رہی ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ زور قانون ساز اداروں میں ان کے لیے نشستیں مخصوص کرنے پر دیا جاتا رہا ہے۔
پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ایک تہائی نشستیں مخصوص کرنے سے متعلق ایک ترمیمی بل ’ناری وندن ادھینیم‘ ایوان زیریں لوک سبھا میں 19 ستمبر کو پیش کیا گیا اور 20 ستمبر کو دن بھر کی بحث اور ووٹنگ کے بعد منظور کر لیا گیا۔
اس بل کے قانون بننے اور نافذ ہونے کے بعد قانون ساز اداروں کی شکل و صورت تبدیل ہو جائے گی اور قانون سازی و فیصلہ سازی میں خواتین کو بھی بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔ اس وقت لوک سبھا میں خواتین کی نمائندگی 15 فی صد ہے۔
لوک سبھا کی 543 نشستوں میں خاتون ارکان کی تعداد 82 ہے۔ لیکن اس قانون کے نفاذ کے بعد یہ تعداد 181 ہو جائے گی۔ تاہم ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کی تعداد مجموعی طور پر صرف آٹھ فی صد ہے۔
اس بل کے مطابق مخصوص کردہ ایک تہائی نشستوں میں سے 33 فی صد نشستیں شیڈولڈ کاسٹ اور شیڈولڈ ٹرائبز یعنی درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے لیے مخصوص ہوں گی۔ یہ نشستیں 15 برس کے لیے مخصوص کی جا رہی ہیں۔
اس بل کے قانون بن جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں اسے نافذ کیا جائے۔ بلکہ اس کا نفاذ اگلی مردم شماری کے بعد کی جانے والی حدبندی کے بعد ہوگا۔
مبصرین کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوا کہ خواتین کو ابھی مزید انتظار کرنا ہوگا۔
گزشتہ مردم شماری سال 2021 میں ہونی تھی لیکن کرونا کی وبا کی وجہ سے اسے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ اب اگلی مردم شماری 2026 میں ہوگی۔ ماہرین کے مطابق اس قانون کا نفاذ 2029 کے انتخابات کے موقع پر ہو پائے گا۔ اس کا اطلاق راجیہ سبھا پر نہیں ہوگا۔
اس سے قبل آئین میں ترمیم کرکے بلدیاتی اداروں میں خواتین کو ایک تہائی ریزرویشن دیا جا چکا ہے۔
SEE ALSO: بھارت میں خواتین کی نشستیں بڑھانے کا بل؛ اپوزیشن کی حمایت کے باوجود تنقیدلوک سبھا میں بحث کے دوران حزبِ اختلاف کی جانب سے دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) اور اقلیتوں کے لیے بھی نشستیں مخصوص کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
پہلے بھی اس کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے اور اس بل کے منظور نہ کیے جانے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے۔
منظور کردہ بل میں او بی سی اور اقلیتوں کے لیے نشستیں مخصوص کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔
جب 2010 میں اس وقت کی یو پی اے حکومت نے خواتین ریزرویشن بل لوک سبھا میں پیش کیا تھا تو او بی سی کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کرنے والی بعض جماعتوں جیسے کہ سماجوادی پارٹی اور راشٹریہ جنتا دل نے اپنے مطالبے پر زور دیتے ہوئے بل کو منظور نہیں ہونے دیا تھا۔
اس بار بھی انہوں نے یہ مطالبہ کیا لیکن بل کی مخالفت نہیں کی۔
بیس ستمبر کو جب لوک سبھا میں بل پر بحث ہو رہی تھی تو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے او بی سی کے ساتھ ساتھ مسلم خواتین کے ریزرویشن کا بھی مطالبہ کیا۔
یاد رہے کہ موجودہ لوک سبھا میں مسلم ارکان کی تعداد 27 ہے۔ سب سے زیادہ مسلمان 1980 میں کامیاب ہوئے تھے جن کی تعداد49 تھی۔
اویسی کا کہنا تھا کہ اب تک لوک سبھا کے لیے مجموعی طور پر 8000 ارکان منتخب ہوئے ہیں جن میں مسلمان ارکان کی تعداد محض 520 رہی ہے۔ ان میں خواتین کی تعداد انتہائی کم رہی۔
انہوں نے اور ان کی پارٹی کے دوسرے رکن امتیاز جلیل نے بل کے خلاف ووٹ دیا۔
اویسی نے نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘سے بات کرتے ہوئے بل کے خلاف ووٹ دینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ بھارت میں او بی سی کی آبادی 50 فی صد ہے جب کہ لوک سبھا میں ان کی نمائندگی 22 فی صد ہے۔ ملک میں مسلم خواتین کی آبادی سات فی صد ہے اور لوک سبھا میں ان کی نمائندگی صفر اعشاریہ سات فی صد ہے۔ لہٰذا ان کو بھی ریزرویشن دیا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ بحث کے دوران تقریر کرتے ہوئے سینئر کانگریس رہنما سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور حزبِ اختلاف کے متعدد ارکان نے او بی سی کو بھی ریزرویش دینے کا مطالبہ کیا۔
SEE ALSO: بھارت میں قبائلی خواتین اور لڑکیاں انسانی سمگلروں کا ہدف کیوں ؟راہل گاندھی نے کہا کہ اس وقت حکومت میں 90 سکیریٹری ہیں جن میں او بی سی صرف تین ہیں۔
او بی سی کو ریزرویش دینے کا مطالبہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے بعض رہنما بھی کرتے رہے ہیں۔
بل کی منظوری کے بعد خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) سے بات کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر اور او بی سی رہنما اوما بھارتی نے کہا کہ وہ بل پیش کیے جانے سے خوش ہیں لیکن اس میں او بی سی خواتین کے لیے نشستیں مخصوص نہ کیے جانے پر مایوس بھی ہیں۔
ان کے مطابق اگر بی جے پی حکومت او بی سی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے ریزرویشن کو یقینی نہیں بنا سکتی تو اس پر سے اس طبقے کا اعتبار اٹھ جائے گا۔
قانون ساز اداروں میں خواتین کے لیے نشستیں مخصوص کرنے کا بل سب سے پہلے 1996 میں پیش کیا گیا تھا۔
اس کے بعد 1998، 1999، 2004 اور 2010 میں پیش کیا گیا تھا لیکن منظور نہیں ہو سکا تھا۔