بھارت میں ملک کا نام تبدیل کرنے کی بحث شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ ملک کی سیاسی و سماجی شخصیات سمیت ہر طبقے کے افراد اب اس بحث میں شامل ہو گئے ہیں۔
یہ معاملہ بھارتی صدر کی جانب سے جی 20 اجلاس کے موقع پر عشائیے کے لیے بھجوائے گئے دعوت نامے سے شروع ہوا۔ دعوت نامے میں 'پریذیڈینٹ آف انڈیا' کے بجائے 'پریذیڈینٹ آف بھارت' درج تھا۔
حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت ملک کے دیگر شہروں کے ناموں کی طرح اب ملک کا نام بھی تبدیل کر رہی ہے۔ حکومتی حلقے اس اقدام کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بھارت میں اب یہ بحث زور و شور سے جاری ہے کہ کیا اب ہم لفظ ’انڈیا‘ کو خیر باد کہہ دیں گے۔ کیا اب ہم خود کو ’انڈین‘ یا ’ہندوستانی‘ کہنے کے بجائے صرف ’بھارتی‘ کہیں گے۔
اس معاملے کو 18 ستمبر کو طلب کیے جانے والے پارلیمان کے خصوصی اجلاس سے جوڑ کر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ یہ اجلاس پانچ روز تک چلے گا۔ لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ حکومت نے خصوصی اجلاس کا ایجنڈا نہیں بتایا۔ لہٰذا مبصرین کا خیال ہے کہ اجلاس میں ملک کا نام بدلنے کے سلسلے میں کوئی بل لایا جا سکتا ہے۔
'ملک کے تین نام چلے آ رہے ہیں'
معروف شاعر و ادیب اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق استاد ڈاکٹر سہیل احمد فاروقی کہتے ہیں کہ اس ملک کے تین نام ہیں ’بھارت، انڈیا، ہندوستان‘ اور یہ تینوں ملک کی تاریخ اور ہماری مشترک تہذیب کا حصہ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ حکمراں مشترک تہذیب میں یقین نہیں رکھتے۔ وہ صرف ایک تہذیب کی وکالت کرتے ہیں اسی لیے نام بدلنے پر زور دے رہے ہیں۔ آر ایس ایس اور بی جے پی والے ہندوستان کو ’ہندواستھان‘ کہتے ہیں۔
معروف ادیب پرفیسر صفدر امام قادری کے خیال میں ادب میں بھارت کا نہیں بلکہ ہندوستان کا استعمال ہوتا آیا ہے۔ سلطنت کے طور پر بھی دیکھیں تو ہمیشہ ہندوستان ہی استعمال ہوتا رہا ہے۔
اُن کے بقول دستاویزات میں یا تو الہند یا ہندوستان ملتا ہے۔ یہ نام مقبول بھی ہے اور سہل بھی ہے۔ اگر بھارت تسلیم شدہ ہوتا تو آئین میں یہ کیوں لکھا گیا کہ ’انڈیا جو کہ بھارت ہے‘۔
'آئین میں جگہ جگہ ترمیم درکار ہو گی'
ماہر قانون اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان کے خیال میں عوامی طور پر یا تو ہندوستان استعمال ہوتا ہے یا بیرون ملک انڈیا استعمال ہوتا ہے۔ ان کے بقول حکومت اپوزیشن کے اتحاد کے نام ’انڈیا‘ سے گھبرا گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اپوزیشن پارٹیاں اپنا نام بدل کر ایسا نام رکھ لیں جس کا مخفف ’بھارت‘ ہو تو حکومت کیا کرے گی۔
دیگر قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر لفظ انڈیا کو ترک کرنا ہے تو آئین میں جگہ جگہ ترمیم کرنا ہو گی۔ سب سے پہلے تو آئین کی دفعہ اول ہی بدلنا ہو گی۔ اس کے علاوہ سرکاری کام کاج میں جہاں جہاں انڈیا استعمال ہو رہا ہے وہاں وہاں بھارت کرنا ہو گا۔
'بھارت میں شہروں اور سڑکوں کے نام تبدیل ہوتے رہے ہیں'
بعض سماجی و سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پرانی عادتیں جلد نہیں بدلتیں یا پرانی شراب کا نشہ بہت دیر سے ہرن ہوتا ہے۔ حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کو نام بدلنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ پہلے وہ شہروں اور سڑکوں کے نام بدلتی رہی ہے اور اب ملک کا ہی نام بدلنے جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ حکومت نے 2015 میں نئی دہلی کے معروف اورنگزیب روڈ کا نام بدل کر ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام روڈ کر دیا تھا۔ اسی طرح حکومت اترپردیش نے الہ آباد کا نام پریاگ راج اور مغل سرائے اسٹیشن کا نام شیاما پرساد مکھرجی اسٹیشن کر دیا ہے۔ جب کہ مہاراشٹر کی بی جے پی حکومت نے اورنگ آباد کا نام چھترپتی سمبھا جی نگر اور احمد نگر کا اہلیا بائی ہولکر نگر کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر بحث جاری
مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان نے سوشل میڈیا پر صدر کا دعوت نامہ پوسٹ کرتے ہوئے قومی ترانے کی پہلی سطر ’جن گن من ادھینائک جے ہے بھارت بھاگیہ وِدھاتا‘ کا استعمال کیا ہے۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے بھی اس کی وکالت اور اپوزیشن کی مخالفت کی مذمت کی ہے۔
ریاست اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے تو دعوت نامے کو غلامی کی ذہنیت پر چوٹ قرار دیا اور لفظ بھارت کے استعمال کو باعث فخر بتایا۔ بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے بدھ کو وزیرِ اعظم کی انڈونیشیا روانگی سے متعلق ایک سرکاری اطلاع شیئر کی جس میں ’پرائم منسٹر آف بھارت‘ درج ہے۔
حکومت اور بی جے پی کے مطابق لفظ ’انڈیا‘ انگریزوں کا دیا ہوا نام ہے جو نو آبادیات کی علامت ہے۔ اس کا استعمال غلامی کی ذہنیت کی عکاسی ہے۔ لہٰذا اس کا استعمال ترک کر دیا جانا چاہیے۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے تو انڈیا نام کو ’خطرناک‘ قرار دے دیا۔
انہوں نے منگل کو راجستھان کے شہر جیسلمیر میں بی جے پی کی ایک یاترا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف کی 28 جماعتوں نے اپنے اتحاد کا نام ’انڈیا‘ رکھا ہے۔ یہ بڑا خطرناک نام ہے۔ ہم نے بھی (2004 کے پارلیمانی انتخاب میں) ’شائننگ انڈیا‘ کا نعرہ دیا تھا اور ہم ہار گئے تھے۔ اب اپوزیشن کی شکست یقینی ہے۔
حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ حکومت اس کے اتحاد ’انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلیسیو الائنس‘ (انڈیا) سے پریشان ہو گئی ہے اس لیے وہ لفظ انڈیا کی جگہ پر بھارت کے استعمال کو فروغ دینا چاہتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب سے اپوزیشن نے اپنے اتحاد کا نام انڈیا رکھا ہے بھارت بنام انڈیا کی بحث چھڑ گئی اور ایک تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ حکومت اور دائیں بازو کی جانب سے لفظ انڈیا کی مخالفت کی جانے لگی ہے۔ خود وزیر اعظم نے اس لفظ کی مخالفت کی ہے۔
اپوزیشن نے نام بدلنے کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ دستور کی دفعہ ایک میں درج ہے ’انڈیا جو کہ بھارت ہے یونین آف اسٹیٹ ہوگا‘۔ سینئر کانگریس رہنما جے رام رمیش نے کہا کہ ’تو اب یوں پڑھا جائے گا کہ بھارت جو کہ انڈیا ہے یونین آف اسٹیٹ ہوگا‘۔
راہل گاندھی، شرد پوار، اروند کیجری وال، ممتا بنرجی، منوج جھا، ایم کے اسٹالن، ڈی راجہ اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے حکومت کے اس قدم کی مخالفت کی ہے۔
لیکن سینئر کانگریس رہنما ششی تھرور کہتے ہیں کہ آئین میں دونوں لفظ ہیں لہٰذا دونوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سماجی و سیاسی ماہرین کے مطابق نام کی ممکنہ تبدیلی کے کئی اسباب ہیں۔ یہ سیاسی، ثقافتی، مذہبی اور لسانی معاملہ بھی ہے۔ بی جے پی کی نظریاتی سرپرست تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) نے ہمیشہ لفظ بھارت کے استعمال کی وکالت کی ہے۔
ان کے بقول وہ انگریزی خط و کتابت میں بھی بھارت استعمال کرتی رہی ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ انڈیا باہر کے لوگوں کا دیا ہوا نام ہے جس کا یہاں کی تاریخی و ثقافتی جڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے پیر کو ایک تقریر میں بھارت کے استعمال پر زور دیا۔
بی جے پی کی نیشنل ایکزیکٹیو کمیٹی کے رکن انربن گانگولی کا کہنا ہے کہ کانگریس نے غیر ضروری تنازع پیدا کر دیا۔ انڈیا کا فطری نام بھارت ہے۔ یہاں کی تمام زبانوں میں بھارت استعمال ہوتا ہے۔ اس کی مخالفت کرنے والے ہماری تاریخی و تہذیبی شناخت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ لفظ بھارت ہندو مذہب کی کتاب پُران اور مہا بھارت میں ملتا ہے۔ ماہرین لسانیات کے مطابق ہندوستان فارسی لفظ ہندو سے بنایا گیا ہے۔ اسے سنسکرت میں سندھو کہتے ہیں۔ عہد مغلیہ میں اس کا نام ہندوستان استعمال ہوتا رہا جب کہ انگریزوں نے اسے انڈیا کہا۔