پاکستان اور بھارت نے کشمیر کے متنازع علاقے میں دونوں ملکوں کے مابین معاہدوں کی پاسداری کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کو روکنے پر اتفاق کیا ہے۔
اس سلسلے میں ایٹمی اسلحے سے لیس دونوں ملکوں نے مہینوں سے جاری کشیدگی کو کم کرنے کی خاطر 2003 کی عسکری کارروائیوں کو روکنے کے معاہدے کی بحالی کا فیصلہ کیا ہے۔
ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے اعلیٰ عسکری کمانڈروں نے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہاٹ لائن پر رابطہ کیا اور کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر صورت حال کا آزادانہ ،واضح اور خوشگوار ماحول میں جائزہ لیا۔
پاکستان کی طرف سے جاری کیے گئے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک نے24 اور 25 فروری کی درمیانی شب سے تمام معاہدوں کے تحت لائن آف کنٹرول سمیت تمام سیکٹرز میں جنگ بندی پر عمل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
بیان میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ایک قابل عمل اور دو طرفہ طور پر مفید امن کے حصول کے لیے دونوں اطراف نے ایک دوسرے کے ایسے بنیادی مسائل اور تشویش کے نکات کو حل کرنے پر اتفاق کیا جن سے امن میں خلل اور تشدد پیدا ہوتا ہے۔
تاہم بیان میں اس سلسلے میں مزید وضاحت نہیں کی گئی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتھونی گو تیرس نے پاکستان اور بھارت میں اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیتےہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ جنگ بندی سے دونوں ممالک میں مزید بات چیت کی راہ نکلے گی۔
سکیرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجیرک نے ایک بیان میں کہا کہ اقوام متحدہ کے رہنما دونوں ملکوں کی فوجوں میں کشمیر کی لائین آف کنٹرول پر جنگ بندی پر عمل کرنے اور طریقے کار کے مطابق معاملات سے نمٹنےکے اتفاق کے مشترکہ بیان کو حوصلہ افزا جانتے ہیں۔
انتھونی گوتیرس نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس مثبت اقدام سے دونوں ملکوں میں مزید ڈائیلاگ آگے بڑھانے کا موقع میسر ہو گا ۔
ادھر پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے واضح کیا ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری پر اتفاق کے حوالے سے ایسی خبریں بے بنیاد ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں میں اتفاق ان کی اپنے بھارتی ہم منصب سے بات چیت اور بیک چینل ڈپلومیسی کی بدولت ہوا۔ ماہریں کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کی پابندی کشمیر کی لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب شہریوں کے حق میں ہے۔
دونوں جنوبی ایشیائی ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کسی غیر متوقع صورت حال یا غلط فہمی کے حل کے لیے دونوں ممالک کو موجودہ دوطرفہ معاہدوں اور بارڈر سیکیورٹی کے حکام کے درمیان ملاقاتوں کی راہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
خطے کے دو بڑے ممالک میں جمعرات کو ہاٹ لائن پر ہونے والا عسکری رابطہ کئی مہینوں سے جاری تعلقات میں بگاڑ کے بعد ہوا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس اتفاق رائے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے خطے میں امن کے فروغ کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت مخلصانہ انداز سے اس پر عمل کرے تو یہ اتفاق رائے ایک اچھا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔
بھارت میں دی ہندو اخبار کے مدیر امیت برواح نے اسے ایک اچھی پیش رفت قرار دیا اور کہا کہ ایسا بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔
برواح نے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بھارت اور پاکستان حالات کو بھلے ایک نظر سے نہ دیکھتے ہوں، لیکن رابطہ رکھنا لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف پر بسنے والے لوگوں کے لیے اچھا ہوتا ہے۔
سن 1947 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک ہونے والی تین میں سے دو جنگوں کا باعث بنا ہے۔ دونوں ممالک یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع کشمیر کا خطہ مکمل طور پر ان کا ہے۔ یہ مسئلہ دونوں ممالک میں جھڑپوں اور خطے میں کشیدگی کی بنیادی وجہ رہا ہے۔
سن 2003 میں اس بین الااقوامی تشویش کے پیش نظر کہ دونوں ممالک میں مسلسل جاری دشمنی ایٹمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے، پاکستان اور بھارت نے جنگ بندی کے ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔
حالیہ سالوں میں عسکری جھڑپوں نے اس معاہدے کو غیر موثر بنا دیا ہے، اگرچہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ دونوں اطراف کا کہنا ہے کہ تشددسے سینکڑوں سکیورٹی اہل کار اور شہری مارے جا چکے ہیں۔
نئی دہلی کا عرصہ دراز سے الزام رہا ہے کہ پاکستان کشمیر میں بھار ت کے خلاف لڑنے والے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کے خلاف یہ الزام تراشی دراصل بین الا اقوامی برادری کی بھارت کے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔
دوطرفہ تعلقات میں تناؤ اگست 2019 کے بعد خطرناک حد تک بڑھ گیا جب بھارت نے یک طرفہ طورپر اپنے زیر کنٹرول کشمیر کی نیم آزادانہ حیثیت ختم کر دی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کر کے بھارتی یونین میں ضم کر دیا۔
اس موڑ پر بھارت نے مسلم اکثریتی علاقے کشمیر میں کئی ماہ تک سیکیورٹی اور کمیونیکیشن کی سخت پابندیاں عائد کیں جو اس کے مطابق کشمیریوں کی جانب سے پر تشدد ردعمل کو روکنے کے لیے کی گئی تھیں۔
پاکستان نے ان پابندیوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پابندیاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کئی عشروں سے چلی آ رہی ان قرار دادوں کے منافی ہیں جو کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کرتی ہیں۔
اس کے بعد اسلام آباد نے تناؤ کے شکار تعلقات کو سفارتی سطح کے کم درجہ تک محدود کر دیا اور بھارت سے کہا کہ وہ کشمیر پر کیے گئے ان اقدامات کو فوراً واپس لے اور یوں خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔
بھارتی رہنماؤں نے پاکستان کے ان اعتراضات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ کشمیر کی نیم آزادانہ حیثیت کے خاتمے اور کمیونیکیشن پر پابندیاں عائد کرنے کا مقصد اس علاقے کی سلامتی اور تشدد کے شکار اس علاقے میں اقتصادی خوشحالی لانا ہے۔
اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق دونوں ملکوں میں جنگ بندی پر کاربند رہنے کا اتفاق بیک چینل ڈپلومیسی سے ممکن ہوا، جس میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور ان کے پاکستانی ہم منصب معید یوسف کے درمیان بارڈر پر امن قائم کرنے پر ہونے والی گفتگو شامل تھی۔
اس سے قبل معید یوسف نے اس پیش رفت کو پاکستان کی جنگ بندی کی لیے امن کی خاطر کی جانے والی سفارت کاری کی فتح قرار دیا اور کہا کہ اس کا مقصد وہاں پر بسنے والے شہریوں کے مصائب کو ختم کرنا ہے۔