پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی بدستور برقرار ہے اور منگل کو بھی دونوں ممالک کی سرحدی افواج کے درمیان ’ایل او سی‘ پر ایک مرتبہ پھر فائرنگ کا تبادلہ ہوا تاہم اُس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" کے مطابق بھارتی فورسز نے صبح چار بجے بھمبر سیکٹر میں "بلااشتعال'' فائرنگ شروع کی جس کا پاکستان کی طرف سے بھی بھرپور جواب دیا گیا۔
فوج کا کہنا تھا کہ بھارتی فورسز نے باغ سر، باروا اور خنجار کے علاقوں کو نشانہ بنایا اور یہ سلسلہ چھ بجے تک جاری رہا۔
بھارت کی طرف سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
ایک طرف جہاں یہ کشیدگی جاری ہے وہیں اطلاعات کے مطابق پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر خان جنجوعہ نے اپنے بھارتی ہم منصب اجیت دوول سے پیر کو ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے۔
تاہم سرکاری طور پر پاکستان کی طرف سے کچھ نہیں بتایا گیا کہ دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان رابطے میں کن اُمور پر بات چیت کی گئی۔ لیکن شائع شدہ اطلاعات کے مطابق اس رابطے کو حالیہ کشیدگی میں کمی کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
اُدھر امریکہ نے بھی پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان الزبیتھ ٹروڈو نے روزانہ کی نیوز بریفنگ میں اس بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’ہم دونوں فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔۔۔ جیسا کہ ہم نے پچھلے ہفتے کہا کہ دونوں ملکوں کی افواج رابطے میں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلسل رابطے کشیدگی میں کمی کے لیے اہم ہیں۔‘‘
ترجمان الزبیتھ نے کہا کہ اُن کا ملک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی کا خواہاں ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کا آغاز گزشتہ ماہ کشمیر کے علاقے میں بھارتی فوج کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر حملے کے بعد ہوا، جس میں کم از کم 18 بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔
گزشتہ جمعرات کو بھارت کی طرف سے کہا گیا کہ اُس نے کشمیر میں ’لائن آف کنٹرول‘ کے قریب عسکریت پسندوں کو ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ سے نشانہ بنایا۔
پاکستان کی طرف سے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُس کے زیر انتظام کشمیر میں کوئی ’سرجیکل اسٹرائیک‘ نہیں ہوئی۔
اُدھر وزیراعظم نواز شریف کے زیر قیادت منگل کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک کی داخلی اور خارجی سلامتی سے متعلق صورت حال اور مسلح افواج کے آپریشنل تیاریوں پر غور کیا گیا۔
اس اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہان بھی شریک تھے اور ایک بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کے کسی ملک یا قوم کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں ہیں اور ’’ ہم امن اور مشترکہ بہتری پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
تاہم بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کی طرف سے امن کی خواہش کو کسی طور کمزوی نا سمجھا جائے۔ ’’ہماری مسلح افواج ملک سالمیت اور جغرافیائی خودمختاری کے تحفظ کے لیے تیار ہیں۔‘‘