بھارت اور پاکستان کے چار سابق ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیٹی نے بھارت کی مختلف جیلوں کا دورہ کرنے کےبعد سفارش کی ہے کہ دونوں ملکوں کے جو ماہی گیر بلا ارادہ آبی سرحد عبور کرکے دوسرے ملک کی سرحد میں داخل ہو جائیں، اُن کو اُن کی کشتیوں کے ساتھ بحری راستے سے واپس بھیج دیا جائے۔
کمیٹی نے گذشتہ سال دونوں ملکوں کے مابین ہونے والے سکریٹری داخلہ سطح کے مذاکرات کی توسیخ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلا ارادہ زمینی سرحدوں کو عبور کرنے والوں کی مانند بلا ارادہ آبی حدود کو عبور کرنے والوں کو بھی رہا کرنے کا طریقہٴ کار وضع کیا جانا چاہیئے۔
کمیٹی نے اپنے ایک بیان میں مزید کہا کہ جِن بیمار قیدیوں کی حالت نازک ہو اور جو قیدی ذہنی معذور ہوں، اُن کو اسپتالوں میں رکھا جانا چاہیئے، خواہ اُن کی شہریت کی تصدیق ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔
تاہم، اُس نے دونوں ملکوں کے مابین مئی 2008ء میں ہونے والے قیدیوں تک حکام کی رسائی کے معاہدے پر مکمل نفاذ نہ ہونے پر تشویش ظاہر کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ گرفتاری کے تین ماہ کے اندر ’کونسلر ایکسیس‘ کی سہولت دی جائے اور سزاؤں کی تکمیل اور شہریت کی تصدیق کے ایک ماہ کے اندر اُنھیں اُن کے ملک واپس بھیج دیا جائے۔
کمیٹی کے ارکان نے تہاڑ جیل نئی دہلی، سینٹرل جیل جے پور اور سینٹرل جیل امرتسر کا دورہ کیا، جہاں اُن کے سامنے علی الترتیب 46، 96اور 45پاکستانی قیدی پیش کیے گئے۔
یہ کمیٹی پاکستان سے دو سابق ججوں جسٹس ناصر عالم زاہد اور جسٹس میاں محمد اجمل اور بھارت سے جسٹس اے ایس گِل اور جسٹس ایم اے خان پر مشتمل تھی۔