پاک بھارت کشیدگی علاقائی استحکام کے لیے خطرہ

فائل

بھارت کے کئی حلقے حکومت کی اس پالیسی پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا پاکستان کے ساتھ عدم تعاون کی اس روش کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکیں گے؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کےنتیجے میں نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں بلکہ خطے کو درپیش سکیورٹی کے مسائل سے نبٹنے کی کوششیں بھی متاثر ہورہی ہیں۔

بھارت نے حال ہی میں افغانستان کے مسئلے پر ایک علاقائی کانفرنس کی میزبانی کی تھی۔ لیکن لاہور میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار امتیاز عالم کے بقول اس کانفرنس میں کسی ٹھوس پیش رفت کے بجائے محض الزامات کا تبادلہ ہی ہوا۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ پاکستان کو ایک علاقائی کانفرنس محض اس لیے منسوخ کرنا پڑی تھی کیوں کہ بھارت نے حالیہ کشیدگی کو جواز بنا کر اس میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔

نئی دہلی کے انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ مینجمنٹ کے سربراہ اجے ساہنی کے خیال میں جب تک بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات حل نہیں ہوجاتے اس وقت تک علاقائی سطح پر ان دونوں ملکوں سے کسی موثر تعاون کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔

تیزی سے قریب آتی اس دنیا میں جنوبی ایشیا اب بھی ایک ایسا خطہ ہے جس کے ممالک ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے رہتے ہیں اور ان کے درمیان مشترکہ مسائل پر بھی باہمی تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس دوری کو ختم کرنے کے لیے سارک یعنی ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن جیسی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ لیکن کئی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی یہ تنظیم موثر نہیں ہوسکی ہے۔

اجے ساہنی کہتے ہیں کہ سارک کا تقریباً ہر سربراہی اجلاس پاکستان اور بھارت کی باہمی چپقلش کی نذر ہوجاتا ہے۔

لیکن حالیہ مہینوں میں یہ چپقلش اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔

پاکستانی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان دورانِ جنگ یا جنگ کے فوراً بعد تو کشیدگی انتہائی عروج پر رہی ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ امن کے اس عرصے کے دوران بھی دونوں طرف منفی جذبات اپنے عروج پر ہیں۔

رواں سال ستمبر میں متنازع وادی کشمیر میں ایک بھارتی کیمپ پر حملے اور اس میں 18 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت کےوزیرِ اعظم نریندر مودی نے علی الاعلان کہا تھا کہ ان کی حکومت پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں تنہا کرنے کی کوشش کرے گی۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان سے آنے والے مبینہ جنگجووں پر عائد کیا تھا۔

واشنگٹن میں واقع تھنک ٹینک وڈرو ولسن سینٹر کے جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کے پروگرام سے وابستہ سینئر تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ بھارت کی اس پالیسی کا سب سے بڑا نقصان سارک کو ہوگا۔ ان کے بقول بھارت نے عالمی برادری میں پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے سارک کو استعمال کیا ہے جس کا نقصان خود اس علاقائی تنظیم کو ہوا ہے۔

حال ہی میں بھارت کے شہر امرتسر میں 'ہارٹ آف ایشیا – استنبول پراسس' کے عنوان سے بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں علاقائی ملکوں کے علاوہ امریکہ، روس، چین اور ترکی بھی شریک تھے۔

کانفرنس کا مقصد جنگ سے تباہ حال افغانستان کو درپیش معاشی اور سکیورٹی چیلنجز کے مقابلے کے لیے عالمی طاقتوں اور خطے کے ممالک کے درمیان تعاون کی راہیں تلاش کرنا تھا۔

کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں افغانستان میں قیامِ امن، استحکام اور خوش حالی کے لیے خطے کے ممالک کے مابین قریبی تعاون پر زور دیا گیا اور ہر طرح کی دہشت گردی اور اس میں معاونت کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔

لیکن اجے ساہنی کے بقول اس کانفرنس اور اس کے اعلامیے کی اہمیت سفارت کاروں کی "نشستن، گفتن، برخواستن" سے زیادہ نہیں۔ ان کے بقول چاہے اس جیسے کتنے ہی اعلامیے منظور کرلیے جائیں لیکن اس سے برسرِ زمین صورتِ حال تبدیل نہیں ہوگی۔

بھارتی حکومت نے کانفرنس میں شریک پاکستان کے وفد کے سربراہ اور وزیرِاعظم پاکستان کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز کو الگ تھلگ رکھنےکی پوری کوشش کی۔ انہیں سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر پاکستانی صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرنے سے روک دیا گیا جب کہ بھارتی حکومت کے کسی عہدیدار نے بھی ان سے ملاقات نہیں کی۔

پاکستان میں سب سے بڑے انگریزی روزنامے 'ڈان' نے اپنے اداریے میں اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کانفرنس کے نتیجے میں خطے میں امن اور استحکام کی کوششوں کو دھچکا پہنچا ہے۔

پاکستانی تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ بھارتی حکومت پاکستان کے خلاف سخت زبان اور رویہ اختیار کرکے دراصل اندرونِ ملک قوم پرستی کے جذبات کو ابھار رہی ہے۔

حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ اس وقت بھارتی حکومت اپنے ملک میں بالکل اسی طرح انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہے جس طرح ماضی میں پاکستان میں فوجی آمر ضیا الحق نے کیا تھا۔ پاکستان کے روشن خیال حلقے ضیا الحق پر ملک میں انتہا پسندی اور عدم رواداری کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

اس کے برعکس بھارتی حکام اور کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالات میں خرابی کی اصل وجہ پاکستان کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی بدستور حمایت ہے۔

اجے ساہنی کے بقول پاکستان کی ریاست ان گروہوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی جن کا ہدف افغانستان اور بھارت ہیں۔

لیکن بھارت کے کئی حلقے حکومت کی اس پالیسی پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا پاکستان کے ساتھ عدم تعاون کی اس روش کے ذریعے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکیں گے؟

موقر بھارتی روزنامے 'دی ہندو' نے حال ہی میں اپنے ایک اداریے میں لکھا کہ اگر افغانستان اور بھارت پاکستان کے ساتھ روابط کا ہر دروازہ بند کرچکے ہیں تو انہیں پھر یہ سوچنا چاہیے کہ اب ان کا اگلا قدم کیا ہوگا؟

اخبار نے لکھا کہ پاکستان کے ساتھ عدم تعاون کے ذریعے پاکستان کی قیادت کو کچھ وقت کے لیے تو دباؤ میں لایا جاسکتا ہے لیکن اگر یہ پالیسی طویل عرصے تک جاری رہی تو افغانستان اور ہندوستان اپنے اس محدود اثر و رسوخ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے جو انہیں پاکستان کے پڑوسی ملک ہونے کے باعث حاصل ہے۔