پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات آج بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہو رہے ہیں۔ پاکستانی وفد کی قیادت پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ جبکہ بھارت کی نمائندگی پردیپ کمار سیکسینا کر رہے ہیں۔
اٹھائیس جنوری سنہ دو ہزار انیس سے یکم فروری سنہ دو ہزار انیس تک جاری رہنے والے مذاکرات میں پاکستان دریائے جناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے پانی اور بجلی کے منصوبوں کا معائنہ کریگا۔ سید مہر علی شاہ کی قیادت میں تین رکنی پاکستانی وفد گزشتہ روز واہگہ کے راستے بھارت روانہ ہوا۔ اپنی روانگی سے قبل پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر سید مہر علی شاہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان نے لوئر کلنائی اور پکل ڈل منصوبوں پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ وہ دریائے چناب پر بنائے گئے بھارتی منصوبوں کا معائنہ کرینگے۔ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے دریائے چناب پر بنائے جانے والے دیگر منصوبوں کے معائنہ پر مثبت اشارے دیے گئے۔
“ڈوڈھا اور کِشتوار کے علاقوں میں جو بھارت کے ہائیڈرو پراجیکٹ خواہ وہ مکمل ہو چکے ہیں، زیر تعمیر ہیں اور ابھی ڈیزائن کے مرحلہ میں ہیں، جہاں تک بھارت ہمیں رسائی دیگا ہم اِن کا معائنہ کرینگے”۔
سید مہر علی شاہ نے بتایا کہ بھارت نے رواں ماہ نو جنوری سنہ دو ہزار انیس کو مذاکرات کی حامی بھری جس کے تحت وہ پاکستانی تحفظات سے پڑوسی ملک کو آگاہ کرینگے۔ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کا کہنا تھا کہ بھارت سے جن دریاؤں کا پانی پاکستان کی طرف آ رہا ہے وفد اُن کا دورہ کریگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان نے بھر پور آواز بلند کی جس پر کامیابی ملی ہے۔
“بگلیہار ڈیم پر جب پاکستان نے کمیشن کی سطح پر اعتراضات اُٹھائے اور معاہدے کے مطابق تھرڈ پارٹی کے پاس گئے تو تھرڈ پارٹی نے پاکستانی موقف کی تائید کی”۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے مسئلے پر نظر رکھے دنیا ٹی وی سے منسلک صحافی زاہد عابد سمجھتے ہیں کہ بہت کم عرصے میں دونوں ملک دوبارہ بات چیت کر رہے ہیں، جس سے دونوں ملکوں کو ہی فائدہ ہو گا اور انہیں کسی تیسرے فریق یا عدالت میں نہیں جانا پڑیگا۔ زاہد عابد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے کوئی بڑے بریک تھرو کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ پاکستان بھارت کے انڈس واٹر کمشنر فیصلے کرنے میں آزاد نہیں۔
“اِس مرتبہ خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارت نے خود سائٹس کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے جو اِس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ گزشتہ پانچ ماہ میں پانی کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کا اکٹھے ہوتا ایک بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ معاہدے کے مطابق تو دونوں ملکوں کو ہر سال مذاکرات کرنے چاہیے جو ماضی میں ہوئے بھی ہیں لیکن بعض اوقات اِن مذاکرات میں کئی کئی سالوں کا وقفہ بھی آتا رہا ہے”۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت آبی مذاکرات کا یہ ایک سو انیسواں دور ہے۔ آبی تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے گزشتہ سال اگست کے مہینے میں نو رکنی بھارتی وفد پاکستان آیا تھا جس میں پاکستان نے دریائے چناب پر بھارت کی جانب سے بنائے جانے والے پکل ڈل ڈیم اور لوئر کلنائی ڈیم کے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ بھارت دریائے چناب پر پندرہ سو میگاواٹ کا پکل ڈل ڈیم اور پینتالیس میگا واٹ کا لوئر کلنائی ڈیم بنا رہا ہے۔ پاکستان کے مطابق دونوں منصوبوں کا ڈیزائن پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پائے جانے والے انیس سو ساٹھ کے انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی ہے۔