|
بھارت میں پولیس نے منگل کے روز سام سنگ الیکٹرانکس کے لگ بھگ 600 کارکنوں اور یونین کے ارکان کو اس وقت حراست میں لے لیا جب وہ سڑکوں پر مظاہرہ کر رہے تھے۔
چنائی میں گھریلو الیکٹرانکس آلات بنانے والے سام سنگ کے اس پلانٹ میں کارکنوں کی ہڑتال اپنے چوتھے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے۔ سام سنگ جنوبی کوریا کی ایک معروف الیکٹرانک کمپنی ہے۔
سام سنگ کی اس فیکٹری کے ایک ہزار سے زیادہ کارکن 9 ستمبر سے ہڑتال پر ہیں جس کی وجہ سے کام میں خلل پڑ رہا ہے۔
کارکن زیادہ تنخواہوں اور یونین کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارت میں سام سنگ کے سالانہ محصولات 12 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔
SEE ALSO: بھارتی بندر گاہوں کے کارکن 28 اگست کو ہڑتال کریں گے: پورٹ ورکرز یونینریاستی پولیس کے ایک سینئر عہدے دار چارلس سام راجادرائی نے بتایا کہ اس مظاہرے کی قیادت سام سنگ کے لیبر گروپ ’سی آئی ٹی یو‘ سے منسلک کارکن اور ملازم کر رہے تھے۔ انہیں چنائی کے قریب اس وقت حراست میں لیا گیا جب مظاہرے کی وجہ سے عام لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ گرفتار کیے گئے افراد کو چار شادی ہالوں میں بند کر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل 16 ستمبر کو بھی پولیس نے سام سنگ کے 104 ہڑتالی کارکنوں کو ایک روز تک حراست میں رکھا تھا۔
ان مظاہروں سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ان کوششوں پر اثر پڑ سکتا ہے جن کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھارت کے اندر اپنی مصنوعات بنانے کی ترغیب دینا ہے۔
SEE ALSO: بھارت میں نئے فوجداری قوانین کے خلاف وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا احتجاجسام سنگ کے کارکنوں کی اس ہڑتال کا شمار حالیہ برسوں میں بھارت میں ہونے والی سب سے بڑی ہڑتال میں کیا جا رہا ہے۔
سام سنگ نے انتباہ کیا ہے کہ مظاہرہ کرنے والے کارکن اپنی ملازمتوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
اس سے قبل سام سنگ نے کہا ہے کہ اس کے پلانٹ میں کام کرنے والے کل وقتی کارکنوں کی تنخواہیں علاقے میں قائم اسی نوعیت کی دوسری فیکٹریوں کے کارکنوں کی تنخواہوں سے تقریباً دگنی ہیں۔ اور یہ کہ فیکٹری کی انتظامیہ معاملات کے حل کے لیے کارکنوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
لیبر یونین سی آئی ٹی یو نے بتایا ہے کہ اس وقت سام سنگ اپنے کارکنوں کو 300 سے 375 ڈالر ماہانہ تنخواہ دے رہا ہے۔25,179 روپے سے ساڑھے 31 ہزار
( اس رپورٹ کی معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)