بھارتی حکومت کی جانب سے 2012ء میں ’گینگ ریپ‘ یعنی اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعہ پر مبنی برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کی متنارع فلم پر عائد پابندی کے باوجود لاکھوں بھارتی اسے انٹرنیٹ پر دیکھ چکے ہیں۔
اس دستاویزی فلم نے عورتوں کے حقوق اور آزادی اظہار پر شدید بحث چھیڑ دی ہے۔
نئی دہلی سے تعلق رکھنے والی آدیتی سین گپتا شروع میں ’’انڈیاز ڈاٹر‘‘ (بھارت کی بیٹی) نامی اس فلم کے ناقدین سے متفق تھیں۔ فلم کے ناقدین نے اس بات پر تنقید کی تھی کہ اس میں میڈیکل کی 23 سالہ طالبہ کے بہیمانہ گینگ ریپ کے ایک مجرم کا تفصیلی انٹرویو پیش کیا گیا تھا۔
پینتیس سالہ آدیتی شاید یہ فلم کبھی نہ دیکھتیں مگر حکومتی پابندی اور اس پر شدید بحث نے ان میں تجسس پیدا کر دیا۔ اسے دیکھنے کے بعد انہوں نے اپنا خیال بدل دیا۔
انہوں نے کہا ’’مجھے اس فلم میں دکھائی جانے والی ذہنیت سے صدمہ پہنچا ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ اسے ریلیز کر دینا چاہیئے نا صرف ریپ کرنے والے کی وجہ سے بلکہ دوسرے لوگوں کی وجہ سے بھی۔ ریپ کے مجرم سے زیادہ مجھے اس کے وکیلوں کے خیالات سن کر دھچکا لگا۔‘‘
جنسی اجتماعی زیادتی کے واقعے میں ملوث چھ افراد میں سے ایک مکیش سنگھ کا کہنا ہے کہ ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی رات دیر تک باہر رہنے کی وجہ سے خود اس واقعہ کی ذمہ دار ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ ریپ کی مزاحمت نہ کرتی تو اسے اتنے وحشیانہ تشدد کا سامنا نہ کرنا پڑتا جس سے بعد میں اس کی موت واقع ہوئی۔
گینگ ریپ کے چار مجرموں کے دو وکلائے صفائی نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔
ایک وکیل اے کے سنگھ نے کہا اگر ان کی غیر شادی شدہ بہن یا بیٹی کوئی غلط حرکت کرتی تو انہیں اس کے جلائے جانے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ دوسرے وکیل نے کہا کہ بھارتی سماج میں عورتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس فلم پر پابندی انصاف اور امنِ عامہ کے قیام کی خاطر لگائی ہے تاکہ عوام میں خوف اور بے چینی نہ پھیلے۔
مگر انٹرنیٹ کے دور میں یہ پابندی کارگر ثابت نا ہوئی۔ اگرچہ یوٹیوب نے اپنی ویب سائیٹ سے اس فلم کو ہٹا دیا مگر یہ فلم دوسرے ناموں سے انٹرنیٹ پر آگئی اور لوگ آزادی سے اس کے لنک شئیر کر رہے ہیں۔
فلم دیکھنے والوں خصوصاً اس سے ناراض عورتوں نے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا خوب اظہار کیا ہے۔
شروع میں لوگوں کی توجہ ریپ کے مجرم کے بیانات پر تھی جنہیں اس فلم کی تشہیر میں استعمال کیا گیا۔ مگر اب لوگ کے غصے کا مرکز دو وکلائے صفائی ہیں۔
عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں اور ماہرِ سماجیات کہتے ہیں کہ ریپ کرنے والا تو ایک مجرم ہے اور غریب گھرانے سے ہے مگر یہ وکلاء پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ماہرِ سماجیات دیپانکر گپتا نے کہا کہ ان وکلاء کے تبصروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس قدر غیر مہذب اور سفاکانہ ذہنیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’ان کے خیالات نہایت مکروہ ہیں۔ انہیں سن کر ہی خوف آتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہ فلم بڑے پیمانے پر دیکھی جائے تو شاید ان دو وکلاء کے خیالات کو سن کر کئی لوگ اپنے اندر کے شیطان کو پہچان سکیں اور اس سے پیچھا چھڑا سکیں ۔ ۔ ۔ حد تو یہ ہے کہ ریپ کرنے والوں کے والدین تک نے ان کی اس طرح حمایت نہیں کی جس طرح یہ دو وکلاء کر رہے تھے۔‘‘
عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کچھ کارکنوں نے اس فلم پر پابندی کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے اس فلم میں بھارتی معاشرے میں موجود جن معاشرتی رویوں اور ذہنیت کی عکاسی کی گئی ہے اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ تاہم کئی لوگوں اور تنظیموں نے اس پابندی کی شدید مخالفت کی ہے اور اسے آزادیء اظہار کے منافی قرار دیا ہے۔