بھارت نے کشمیر سے متعلق اسلامی تعاون تنظیم، او آئی سی، کی اس قرارداد کو مسترد کر دیا ہے جس میں ”بھارتی دہشت گردی“ اور ”بڑے پیمانے پر لوگوں کے نابینا“ ہونے کا حوالہ دیا گیا ہے۔
اتوار کو بھارتی وزارت خارجہ نے او آئی سی کے اجلاس کے اختتام پر نئی دہلی میں ایک بیان جاری کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جموں و کشمیر بھارت کا ناگزیر حصہ ہے اور یہ بھارت کے لیے یکسر اندرونی معاملہ ہے‘۔ البتہ او آئی سی کے اجلاس میں وزیر خارجہ سشما سوراج کو اعزازی حیثیت سے مدعو کیے جانے کو ”ایک تاریخی قدم“ قرار دیتے ہوئے اس کی ستائش کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ او آئی سی کے اجلاس میں کشیمر کی صورتحال پر ایک قرارداد منظور کی گئی تھی۔
او آئی سی نے بھارت پاکستان امن عمل سے متعلق ایک دوسری قرارداد میں قیام امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کی تعریف کی ہے۔
قرارداد میں عالمی سطح پر مسلم اقلیت کا ذکر کیا گیا ہے اور اس میں بھارتی حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر اس کی تعمیر نو کرے۔
او آئی سی کی یہ قراردادیں وزیر خارجہ سشما سوراج کے دورے کے ایک روز بعد منظور کی گئیں، جس میں انھوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے بارے میں تقریر کی تھی۔
او آئی سی میں منظور ہونے والی اس قرارداد سے بھارتی حکومت کو سبکی کا سامنا ہے۔
قرارداد کے ایک پیراگراف میں بھارت اور پاکستان کے مابین حالیہ کشیدگی کا ذکر کیا گیا ہے اور کنٹرول لائن پر ”بھارتی افواج کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی“ کی مذمت کی گئی ہے۔
سشما سوراج کو اجلاس میں شرکت کی دعوت اجلاس کے میزبان ملک متحدہ عرب امارات نے دی تھی جس کے بھارت سے قریبی تعلقات ہیں۔
لیکن جب پلوامہ واقعہ کے بعد بھارتی فضائیہ نے بالاکوٹ میں کارروائی کی تو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سشما کو مدعو کرنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
شاہ محمود قریشی نے پاکستانی ایوان کو بتایا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارت کے وزیر خارجہ سے اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ان سے بھارت کی وزیر خارجہ کو شرکت کی دعوت واپس لینے کی درخواست کی تھی۔
شاہ محمود قریشی کے بقول انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ بصورت دیگر ان کے لیے اجلاس میں شرکت کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
پاکستانی وزیر خارجہ کے بقول متحدہ عرب امارات کا موقف ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کو او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت اس وقت دی گئی تھی جب پلوامہ کا واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔
جہاں تک کشمیر کا معاملہ ہے تو او آئی سی کا ایک دیرینہ موقف ہے جو پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا ہے اور اجلاس میں وہی موقف اختیار کیا گیا۔
خیال رہے کہ بھارت ایک عرصے سے او آئی سی کا رکن بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن پاکستان کے اعتراض کی وجہ سے بھارت کو اس کا رکن نہیں بنایا جا سکا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے امور کے ایک ماہر اور جامعہ ہمدرد نئی دہلی میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے صدر پروفیسر اشتیاق دانش وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کشمیر کے معاملے پر او آئی سی کا ایک مستقل موقف ہے جو پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔
ان کے بقول بھارت چاہتا تھا کہ وہ وہاں جا کر اس کے ارکان کو متاثر کر سکے۔ اس کا خیال ہے کہ اگر وہ وہاں رہتا ہے تو پاکستان کے موقف کا جواب دے سکے گا۔ لیکن او آئی سی نہ تو پاکستان کو نظرانداز کر سکتی ہے اور نہ ہی بھارت کو۔ اس لیے اس نے توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
اُن کے مطابق ’وہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ ہے اور دہشت گردی کے معاملے پر بھارت کے ساتھ ہے۔‘۔
پروفیسر دانش کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کے ایک بڑی مارکیٹ ہونے اور ایک بڑی قوت کی حیثیت سے ابھرنے کی وجہ سے خلیجی ممالک اسے نظر انداز نہیں کر سکتے اور بھارت بھی ان ملکوں کے ساتھ اپنے تجارتی روابط کو بہت زیادہ بڑھانا چاہتا ہے۔