اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے 18 ماہرین نے بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں ہونے والے نسلی تشدد، انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور متاثرین کی مبینہ ناکافی انسانی امداد پر اظہار تشویش کیا ہے۔
بھارت کے صحافیوں کے ایک اعلیٰ ادارے ’ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا‘ نے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں حکومت پر جانب داری برتنے اور میڈیا کوریج کے یک طرفہ ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔
یاد رہے کہ منی پور میں گزشتہ تین مئی کو وادی میں رہنے والی ہندو اکثریت پر مشتمل میتی برادری اور پہاڑوں میں مقیم کوکی قبائل کے درمیان نسلی تشدد پھوٹ پڑا تھا جس میں بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ 60 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق تاحال تشدد کے اکا دکا واقعات پیش آ رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں وہاں کی صورتِ حال کو انتہائی سنگین قرار دیا گیا اور جنسی تشدد، ماورائے عدالت قتل، مکانات کو جلانے، لوگوں کو جبراً بے گھر کرنے اور ناروا سلوک کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
مبینہ طور پر ان میں سے ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی تھی۔
فسادات کے باعث تقریباً 60 ہزار افراد بے گھر ہو گئے ہیں جنہیں 350 پناہ گزیں کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔
منی پور بھارت کی میانمار کے ساتھ سرحد پر واقع ریاست ہے۔ یہاں نسلی بنیادوں پر تقسیم دو درجن سے زائد قبیلے آباد ہیں۔ لیکن بڑے قبائل میتی اور کوکی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں دو کوکی خواتین کی برہنہ پریڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ اقلیتی کوکی نسل سے تعلق رکھنے والی خواتین کو نشانہ بنانے، اجتماعی زیادتی، تشدد کرکے ہلاک کرنے اور زندہ جلانے کی رپورٹوں سے خوفزدہ ہیں۔
ماہرین نے جن میں سے بیشتر اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندے ہیں، اس امید کا اظہار کیا ہے کہ منی پور میں تشدد اور کشیدگی بڑھانے کے ذمے دار حکومتی اہل کاروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
بھارت نے اس رپورٹ کو غیر ضروری، مفروضہ اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
SEE ALSO: بھارت: منی پور میں میتی اور کوکی کمیونٹیز کے درمیان اختلاف کیا ہے؟اقوامِ متحدہ میں بھارت کے مستقل مشن نے انسانی حقوق سے متعلق ہائی کمشنر کے دفتر کو ایک نوٹ ارسال کر کے کہا ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ منی پور میں صورتِ حال پرامن اور مستحکم ہے اور بھارتی حکومت امن و استحکام کے قیام کے لیے ضروری اقدامات اٹھا رہی ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت منی پور کے عوام کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے تئیں پرعزم ہے۔ اس کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ماہرین کو ان معاملات پر تبصرہ کرنے سے بچنا چاہیے جو کونسل کی جانب سے انھیں دی گئی ذمہ داریوں سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔
ایڈیٹرز گلڈ کی رپورٹ
دریں اثنا ’ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا‘ نے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں منی پور تشدد پر میڈیا کی رپورٹ کو یک طرفہ اور منی پور حکومت کے رویے کو جانبدارانہ قرار دیا ہے۔
منی پور دورے پر جانے والے گلڈ کے تین رکنی وفد نے ہفتے کو جاری کردہ اپنی رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ اس کے واضح اشارے پائے گئے ہیں کہ تشدد کے دوران ریاستی قیادت کا رویہ جانبدارانہ تھا۔ اسے تشدد کے دوران کسی کی طرفداری نہیں کرنی چاہیے تھی مگر وہ اس میں ناکام رہی۔
گلڈ کی جانب سے سینئر صحافی سیما گہا، سنجے کپور اور بھارت بھوشن نے سات سے دس اگست تک منی پور کا دورہ کیا اور دو ستمبر کو 24 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ جاری کی۔
رپورٹ کے مطابق انڈین آرمی اور دوسروں کی جانب سے گلڈ کو متعصبانہ اور جانبدارانہ رپورٹنگ کی شکایت ملنے پر مذکورہ وفد بھیجا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ منی پور کے دارالحکومت امپھال میں میتی حکومت، میتی بیوروکریسی اور میتی پولیس ہے اور پہاڑی علاقوں میں رہنے والے قبائلیوں کو ان پر اعتماد نہیں ہے۔ رپورٹ میں منی پور کے میڈیا کو میتی میڈیا قرار دیا گیا ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ کے خلاف کارروائی
منی پور پولیس کی جانب سے ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کی چیئرپرسن سیما مصطفیٰ اور وفد کے اراکین کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ نے پیر کو امپھال میں ایک پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ گلڈ کی جانب سے تشدد کو ہوا دی جا رہی اور ریاست میں مزید تصادم کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ان کے مطابق گلڈ کے وفد کے ارکان منی پور کی پیچیدگی اور زمینی حقائق کو جانے بغیر کسی نتیجے پر کیسے پہنچ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ دوسری فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ہے جس کی بنیاد پر رپورٹ درج کی گئی ہے۔ اس سے قبل جولائی میں انسانی حقوق کی کارکنوں اینی راجہ، نشا سدھو اور دیکشا دویدی کے خلاف رپورٹ درج کی گئی تھی۔
یہ خواتین ’نیشنل فیڈریشن آف انڈین ویمن‘ کی ٹیم کا حصہ تھیں جس نے منی پور کا دورہ کرنے کے بعد ہونے والے تشدد کو ریاستی حکومت کی جانب سے برپا کیا جانے والا تشدد قرار دیا تھا۔
صحافیوں کی مذمت
پریس کلب آف انڈیا، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی جانب سے ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے خلاف ایف آئی آر درج کیے جانے کی سختی سے مذمت کی جا رہی ہے۔ پریس کلب آف انڈیا نے ایف آئی آر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
پریس کلب آف انڈیا کے صدر اوما کانت لکھیڑہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ منی پور کی پولیس نے ایڈیٹرزگلڈ کے خلاف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 66 اے کے تحت کارروائی کی ہے جب کہ سپریم کورٹ اس دفعہ کو پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی ہے۔
'انڈین ویمن پریس کور‘ (آئی ڈبلیو پی سی) نے بھی منی پور پولیس کی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ اس نے ایک بیان میں کہا کہ میڈیا کے حقوق کے لیے سرگرم ایڈیٹرز گلڈ کے خلاف کارروائی بھارت جیسے جمہوری ملک میں انتہائی ناپسندیدہ ہے۔
منی پور کی کوکی برادری کے حقوق کے لیے سرگرم متعدد کوکی تنظیموں کے وفاق ’انڈیجنس ٹرائبل لیڈرز فورم‘ (آئی ٹی ایل ایف) نے علیحدہ بیان جاری کرکے صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی مذمت کی ہے۔
دریں اثنا ’آل میتی ورکنگ جرنلسٹ یونین‘ (اے ایم ڈبلیو جے یو) اور ایڈیٹرز گلڈ منی پور نے دھمکی دی ہے کہ اگر گلڈ نے مبینہ طور پر رپورٹ کی غلط باتوں پر وضاحت پیش نہیں کی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔