بھارت نے امریکہ کے کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی خطرناک حد تک سکڑتی جا رہی ہے اور اقلیتوں پر حملے بڑھ رہے ہیں۔
کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں امریکی حکومت کو بھارت کو ان 13 ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی تجویز دی ہے، جہاں شہریوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔
سال 2004 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب بھارت کو اس فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس فہرست میں چین، پاکستان، شمالی کوریا، سعودی عرب اور روس بھی شامل ہیں۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے اپنے رد عمل میں کہا کہ مذکورہ کمیشن کی جانب سے بھارت کے خلاف متعصبانہ اور متنازع تبصرے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ البتہ اس مرتبہ اس کی غلط بیانی نئی سطحوں تک پہنچ گئی ہے۔
لیکن نئی دہلی کے تجزیہ کار اس رپورٹ کو جائز قرار دے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے سرگرم کارکن مسیحی رہنما جان دیال نے امریکی کمیشن کی رپورٹ کو بھارت کے لیے انتہائی شرمناک قرار دیا اور کہا کہ بھارت میں حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ دوسرے ملکوں کو بھی ان پر تبصرہ کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت نے کمیشن کی رپورٹ پر بچگانہ ردعمل دیا ہے۔ اُن کے بقول ہمیں اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ یہاں کی مذہبی اقلیتوں پر ظلم ہو رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول پہلے قبائلیوں اور عیسائیوں پر ظلم ہوتا تھا مگر اب جس طرح مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ تبلیغی جماعت کے سلسلے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ یہاں کے حالات اچھے نہیں ہیں۔
بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو بعض ناقدین بھارت میں 'ہندوتوا' کے پرچار کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ ناقدین کا یہ الزام ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت ملک کو مکمل طور پر ایک ہندو اسٹیٹ بنانا چاہتی ہے۔
جان دیال اس بات کی تائید کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت اور راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) خواہ کتنی ہی کوشش کر لیں وہ بھارت کو ہندو اسٹیٹ نہیں بنا سکتے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر بھارت کو تشویش زدہ ملکوں کی فہرست میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ تو یہ اس کے لیے انتہائی شرمناک ہو گا۔
سینئر تجزیہ کار اجے کمار کا کہنا ہے کہ مذکورہ کمیشن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس نے اپنی سفارش میں کہا ہے کہ بھارت کو پاکستان، چین اور شمالی کوریا کے مساوی رکھ دیا جائے۔ لیکن اس حوالے سے اس رپورٹ میں تضاد اور ابہام ہے۔
ان کے بقول رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین میں 18 لاکھ مسلمان کیمپوں میں قید ہیں۔ لیکن کیا بھارت میں ایسا ہے۔ رپورٹ میں چین کے اعداد و شمار دیے گئے ہیں لیکن بھارت کے بارے میں کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کیے گئے۔
اجے کمار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) نافذ ہو گیا تو لاکھوں مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں ڈال دیا جائے گا۔
لیکن اُن کے بقول حکومت واضح کر چکی ہے کہ این پی آر ہمارے ایجنڈے میں نہیں ہے۔ لہٰذا صرف اندیشے کی بنیاد پر بھارت کو چین، پاکستان اور شمالی کوریا کے مساوی رکھنے کا کیا جواز ہے۔
اجے کمار کے بقول چین میں مسلمانوں کو داڑھی رکھنے اور نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ان کو اپنے بچوں کے نام حکومت سے پوچھ کر رکھنے پڑتے ہیں۔ لہذٰا بھارت کو ایسے ممالک کی فہرست میں کیسے رکھا جا سکتا ہے۔
اجے کمار کہتے ہیں کہ شہریت بل اور اور این پی آر کی بنیاد پر بھارتی ایجنسیوں کے خلاف کارروائی کی بات کی گئی ہے۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب بھارت آئے تھے تو انہوں نے ان معاملات پر بھارت کو کلین چٹ دی تھی۔
اجے کمار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بھارت کا آئین مذہبی آزادی کی گارنٹی دیتا ہے اور یہاں کی حکومت آئین کی بنیاد پر چلتی ہے۔ کوئی بھی حکومت آئے وہ آئین کی تفویض کردہ مذہبی آزادی کو نہیں چھین سکتی۔
ریاست چھتیس گڑھ کے سابق ڈائریکٹر جنرل آف پولیس وزیر انصاری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے امریکی کمیشن کی رپورٹ کا خیرمقدم کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ایک وجہ آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پالیسی بھی ہے۔
وزیر انصاری نے یہ بھی کہا کہ جب سے بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے اقلیتوں پر حملے بڑھے ہیں۔ اس وقت بھی جبکہ پورا ملک کرونا سے لڑ رہا ہے حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ مسلمانوں سے لڑ رہے ہیں۔
دریں اثنا پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کو خط لکھا ہے۔ جس میں بھارت میں مبینہ طور پر مسلمانوں کے خلاف چلائی جانے والی مہم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرا کر اُن کے خلاف نفرت اور جھوٹ پر مبنی مہم چلائی جا رہی ہے۔