لاہور میں واہگہ سرحد پر جمعرات کے روز بھارت کی بارڈر سیکورٹی فورس نے 18 ماہی گیروں سمیت 39 پاکستان قیدی پنجاب رینجرز کے حوالے کئے۔ ان تمام قیدیوں کو بھارت نے خیر سگالی کے طور پر رہا کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔
یہ پاکستانی قیدی بھارت کی مختلف جیلوں میں بند تھے۔ کوئی دو ماہ سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا جب پاکستان نے بھی خیر سگالی کے طور پر یہاں قید 217 بھارتی ماہی گیر رہا کردیے تھے۔
اس برس جنوری کے مہینے میں پاکستان نے چندہ بابو لال چوہان نامی اس بھارتی فوجی کو بھی واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارتی حکام کے حوالے کیا تھا جس کو کشمیر مں لائن آف کنٹرول پر مبینہ طور پر پاکستانی فوج نے گرفتار کیا تھا۔
سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ایسے خیر سگالی کے اقدامات سے فضا تو بہتر ہوتی ہے مگر پیچیدہ مسائل حل کرنے کے لئے یہ خیر سگالی کافی نہیں ہوتی۔
ڈاکٹر حسن عسکری نے ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ گفتگو میں کہا ہے کہ اس طرح قیدی رہا کرنے سے کچھ کشیدگی تو کم ضرور ہوتی ہے۔ لہذا، دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے سارے قیدی رہا کرکے خیر سگالی کی فضا میں اضافہ کریں، جس سے ممکن ہے کشیدگی میں زیادہ کمی آئے اور جو قیدی جیلوں میں سڑ رہے ہیں وہ بھی اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔
گزشتہ برس بھارتی کشمیر میں ایک فوجی اڈے پر حملے کے واقع کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کچھ زیادہ بڑھ گئی تھی کیوں کہ بھارت نے اس حملے کا الزام عسکریت پسند تنظیم، جیش محمد پر لگایا تھا جس کا گڑھ پاکستان میں بتایا جاتا ہے۔ اس کے بعد سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈی پر دونوں طرف سے فائرنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن میں طرفین نے اپنی اپنی طرف لوگوں کے ہلاک و زخمی ہونے کی اطلاعات دی ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے مابین بوجوہ کشیدگی کا ماحول رہتا ہے۔ لیکن، بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس اور پاکستان رینجرز کے عہدیداروں کے اجلاس بھی ہوتے رہتے ہیں جن میں دونوں فریقین ایک دوسرے کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہیں اور غیر ارادی طور پر سرحد پار کر جانے والے اپنے اپنے شہریوں کی واپسی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔