واشنگٹن میں بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی نے بھارت کو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے لیکن ان وجوہات کے لئے نہیں، جن کی وجہ سے وہ توجہ دلوانے کے خواہش مند تھے۔
بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد 'نیو یارک ٹائمز' نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ بھارت کے مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہیں، ایک وہ جو فیصلے کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں اور ایک وہ جو مذہبی ہم آہنگی کی فضا قائم رکھنے کے لئے اس معاملے کو ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
جو مسلمان اس معاملے کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں، وہ بابری مسجد کی تعمیر نو کو بھارت میں مسلمانوں کے مقام سے جوڑتے ہیں اور اُنہیں خدشہ ہے کہ اب مسلمانوں کی مزید مذہبی علامات کو نشانہ بنایا جائے گا۔
'نیو یارک ٹائمز' کی اس رپورٹ کے مطابق، ہفتے کو بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھارت میں سرکاری عہدیداروں نے صحافیوں کو بلا کر نام نہ بتانے کی شرط پر یقین دہانی کرائی کہ بھارت میں مزید کسی مسجد کو نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گااور بھارتی حکومت اب اس معاملے کو ہمیشہ کے لئے ختم کر کے ملک کی ترقی پر توجہ دینا چاہتی ہے۔
بھارتی وزیرِ اعظم نے اس سال کے انتخابات سے قبل وعدہ کیا تھا کہ وہ بھارت کو 2025 تک پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بنا دیں گے لیکن بھارت میں معاشی ترقی کی رفتار سست ہے اور بے روزگاری کی سطح 45 برسوں میں اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔
نیو یارک ٹائمز کے اس مضمون کے مطابق، واشنگٹن کے تھنک ٹینک کارنیگی اینڈاومنٹ کے جنوبی ایشیا پروگرام کے بھارتی نژاد ڈائریکٹر ملن ویشنو کے خیال میں ایودھیا کیس کے فیصلے کے بعد فوری خطرہ ہندو مسلم تناؤ کا ہے، کیونکہ کشیدگی میں اضافے کے لیے ماحول موجود ہے۔
لیکن اصل خطرہ یہ ہے کہ کیا مسلمان اور دیگر بھارتی اقلیتیں دوسرے درجے کے شہری بن کر زندہ رہنے پر قناعت کر لیں گی؟ بھارت کا امتیازی وصف ہی یہ تھا کہ اس نے اپنے پڑوسی ملکوں کے بر عکس ایک ریاست کے طور پر اپنے آپ کو ایسے تناو بھرے حالات سے بچا کر رکھا ہوا تھا۔
چار مہینے پہلے بھارت نے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 ہٹا کر متنازعہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ بی جے پی میں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کو خصوصی تحفظ فراہم کرکے ان کے ہندو ہم وطنوں پر فوقیت دی گئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بیشتر ہندو مندروں کا انتظام بھارتی حکومت کے پاس ہے، جبکہ مساجد اور گرجا گھروں کا انتطام مسلمان اور عیسائی خود سنبھالتے ہیں۔ بھارت کی ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی میں 80 فیصد آبادی ہندو مذہب کی پیروکار ہے۔
مضمون کے مطابق ہندو عقیدت مندوں نے ایودھیا میں مندر بنانے کے لیے متنازع مقام پر لاکھوں اینٹیں اکٹھی کر رکھی ہیں، جن پر 'سری رام' کے الفاظ کندہ ہیں۔ عقیدت مندوں کا کہنا ہے "یہ اینٹیں نہیں، ان کے احساسات ہیں۔"
ایودھیا میں اپنے گھر کے صحن میں بیٹھے حاجی محبوب احمد بابری مسجد کیس کے مدعین میں شامل تھے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ دائیں بازو کے ہندو اب بے خوف ہو جائیں گے، مزید مسجدیں گرائی جائیں گی اور مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔
حاجی محبوب احمد کو تیس سال قبل بابری مسجد کو مسمار کیے جانے کے وقت پورے ایک مہینے کے لیے اپنا گھر چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا تھا۔
امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز' ہی کے ایک دوسرے مضمون میں اخبار کے جنوبی ایشیا بیورو کے رپورٹر کائی شلز کا مضمون شائع ہوا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلیتی برادریوں میں پائے جانے والے ان خدشات کو ہوا ملتی ہے کہ وزیر اعظم مودی کے کچھ قوم پرست حامی ملک کی سیکولر بنیادوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ اس سے ان لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں جو ہندو مذہب سے انتہا درجے کی وفاداری کا اظہار نہیں کرتے۔
مضمون نگار نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں تین صحافیوں سوربھی سنگھ، سوہاسنی راج اور کریتیکا سونی کی فراہم کردہ معلومات بھی شامل کی ہیں۔
مضمون نگار نے لکھا ہے کہ بھارت میں ہندو راشٹرا اور ہندو مذہبی برتری کی ترویج کے لیے پاپ موسیقی اور رقص کا سہارا لیا جارہا ہے ۔ ایک پاپ گلوکارہ لکشمی دوبے کے کنسرٹ تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں جن کے گیتوں میں ہندتوا کی زور دار انداز میں تشہیر کی جا رہی ہے۔
اُن کے بعض گیتوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ تمام ہندوستان کیسری رنگ کا ہو گا یعنی بھارت مکمل طور پر ایک ہندو ریاست ہو گی۔ ان کے بعض گیتوں میں کھلے عام ہندو مذہب کو نہ ماننے والوں کو قتل کرنے، انہیں زبردستی ہندو بنانے اور پاکستان کی مخالفت میں جملے شامل ہوتے ہیں۔مضمون نگار کے مطابق، جب 30 سالہ دوبے ایسے گیت گاتی ہیں تو لوگ انہیں بے حد پسند کرتے ہیں۔
مضمون کے مطابق، ہندو تہواروں کے موقعوں پر ہندوؤں کے جلوس مسلمان آبادی والے محلوں میں جا کر ایسے گیتوں کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔
دوبے نے نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا مقصد ایسے ’فٹ سولجرز‘ کو بھرتی کرنا ہے جو بھارت کو مکمل طور پر ایک ہندو ملک بنا سکیں۔
گلوکارہ کے بقول، ہندو اس قدر معصوم اور کمزور رہے ہیں کہ یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ مسلمان ان کیلئے بڑا خطرہ ہیں اور اب وہ ہندوؤں کو جگانے کا عزم لیے سامنے آئی ہیں۔ بھارت کی ایک ریاست کے عہدیدار، جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے، دوبے کے کنسرٹ کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کرنے کا بر ملا اعتراف کر چکے ہیں۔
مضمون نگار کے مطابق، اس روش سے بھارت میں ہجوم کی طرف سے غیر ہندو افراد کے قتل کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان میں گاؤ رکھشا کے نام پر ہونے والے ہجوم کی طرف سے حملے خاص طور پر شامل ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ بھارت میں قصائی عام طور پر مسلمان یا نچلی ذات کے ہندو ہوتے ہیں اور انہیں ایسے حملوں کا سامنا رہتا ہے۔
”ایک اور ہندوتوا پاپ گلوکار سنجے فیض آبادی اپنے گیتوں میں اکثر پاکستان مخالف جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن ’نیو یارک ٹائمز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے گیتوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ تشدد کو فروغ دے رہے ہیں۔ لیکن، بقول ان کے، ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ وزیر اعظم مودی کے وفادار ہیں لیکن وہ کسی کے مخالف نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ ان پر ہندتوا کا لیبل لگا سکتے ہیں، لیکن وہ ان سے نفرت نہیں کرتے جو ہندتوا کو فروغ نہیں دیتے۔
مضمون نگار کے مطابق، بھارت کے ایک روایتی طرز کے معروف گلوکار ٹی ایم کرشنا کہتے ہیں کہ نفرت کو مذہب کے ساتھ جوڑے جانے کی روایت عام ہو گئی ہے ۔نقاب ہٹ گیا ہے اور جو ہم دیکھ رہے ہیں، اس سے ہمیں بےحد پریشانی ہونی چاہیے۔