بھارت کی سپریم کورٹ نے حکومت کو ان 122 ٹیلی کام کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے کا حکم دیا ہے جنہیں 2008ء میں مبینہ طور پر کم نرخوں پر یہ لائسنس دیے گئے تھے۔
بھارت کی تاریخ میں بدعنوانی کے اس سب سے بڑے اسکینڈل سے متعلق ایک مقدمے میں سنائے گئے اس فیصلے سے بھارت کی ٹیلی کام کی صنعت متاثر ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ لائسنسوں کی منسوخی کے بعد کمپنیوں کی جانب سے صارفین کو سہولیات کی فراہمی رک جائے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جمعرات کو دیے گئے عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے نتیجے میں ملک کے پانچ فی صد موبائل فون صارفین متاثر ہوں گے۔
مذکورہ اسکینڈل کے مرکزی ملزم بھارت کے سابق وزیرِ مواصلات اے راجا ہیں جو ان دنوں جیل میں ہیں۔ سابق وزیر اور دیگر ایک درجن شریک ملزمان پر رشوت وصول کرکے کم نرخوں پر ٹیلی کام کمپنیوں کو لائسنس دینے کا الزام ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اسکینڈل کے نتیجے میں بھارتی خزانے کو محصولات کی مد میں 40 ارب ڈالرز کا خسارہ برداشت کرنا پڑا تھا۔
بھارت کی عدالتِ عظمیٰ نے جمعرات کو دیے گئے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ان کمپنیوں کو لائسنس "غیر آئینی طریقے" سے دیے گئے تھے۔
مذکورہ اسکینڈل نے بھارتی وزیرِاعظم من موہن سنگھ کی سربراہی میں قائم کانگریس حکومت کے لیے خاصی مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں اور حکومت کو بدعنوانی روکنے میں ناکامی اور نااہلی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارتی حزبِ اختلاف کی اہم جماعت 'بھارتیہ جنتا پارٹی' سمیت کانگریس حکومت کے ناقدین اسکینڈل میں وزیرِ داخلہ پی چدمبرم کو بھی شاملِ تفتیش کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو 2008ء میں لائسنسوں کے اجرا کے وقت ملک کے وزیرِ خزانہ تھے۔
تاہم جمعرات کو دیے گئے اپنے فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ نے وزیرِ داخلہ کو شاملِ تفتیش کرنے کا فیصلہ اس ذیلی عدالت پر چھوڑ دیا ہے جو اس مقدمے کی مجرمانہ سماعت کر رہی ہے۔