بعض حکومتی عہدے داروں کی ٹوئٹس کو 'گمراہ کن' قرار دینے پر بھارتی حکام اور امریکہ کی سوشل میڈیا کمپنی ٹوئٹر کے درمیان تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔ بھارتی پولیس حکام نے کہا ہے کہ انہوں نے ٹوئٹر کے دہلی اور گڑگاؤں کے دفاتر کا دورہ کیا ہے اور کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر کو نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر کے منیجنگ ڈائریکٹر کو یہ نوٹس کمپنی کی جانب سے کچھ حکومتی عہدیداروں کے ٹوئٹس کو 'گمراہ گن معلومات' (manipulated media) میں ٹیگ کرنے پر جاری تحقیقات کے سلسلے میں دیا گیا ہے۔
بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کچھ رہنماؤں نے ایک دستاویز کے کچھ حصے ٹوئٹر پر شیئر کیے تھے جن میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کی جانب سے کرونا سے نمٹنے کے لیے حکومتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رکاوٹ ڈالنے کا تذکرہ تھا۔
SEE ALSO: بھارت میں سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے ضابطوں کا اعلانالبتہ کانگریس نے کہا تھا کہ یہ دستاویزات جعلی ہیں اور انہوں نے ٹوئٹر کو شکایت بھی کی تھی جس پر ان پوسٹس کو 'گمراہ کن' کے طور پر ٹیگ کیا گیا۔
ٹوئٹر کی جانب سے جن پوسٹ کو 'گمراہ کن معلومات' کے طور پر ٹیگ کیا گیا ان میں وہ (ویڈیوز، آڈیوز اور تصاویر) شامل ہیں جو ٹوئٹر کی پالیسی کے تحت 'من گھڑت یا تبدیل شدہ' کے زمرے میں آتی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ٹوئٹر کی جانب سے جن پوسٹس کو 'گمراہ کن معلومات' میں شامل کیا ان میں بی جے پی کے ترجمان سمبت پترا کی پوسٹس بھی شامل ہیں۔
دہلی پولیس نے پیر کو کہا ہے کہ انہیں پترا کی ٹوئٹس سے متعلق شکایت موصول ہوئی تھی جس پر وہ تحقیقات کر رہے ہیں اور انہوں نے انکوائری کے سلسلے میں ٹوئٹر کے دفتر کا دورہ کرکے نوٹس دیا ہے۔
پولیس نے ایک بیان میں کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر کے حوالے سے کہا کہ یہ ضروری تھا کیوں کہ ہمیں معلوم کرنا تھا کہ نوٹس کے لیے موزوں فرد کون ہے کیوں کہ ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی کے جوابات مبہم رہے ہیں۔
بھارتی پولیس کے نوٹس پر ٹوئٹر نے ابھی تک کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
خیال رہے کہ بعض طبقات حکومت کی جانب سے وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی پر تنقید کر رہے ہیں جب کہ بی جے پی نے دوسری لہر کی نریندر مودی کی وارننگ کو نظر انداز کرنے اور سست ردِعمل پر ریاستی حکومتوں کو موردِ الزم ٹھہرایا ہے۔
نریندر مودی کی انتظامیہ کی جانب سے مبینہ طور پر ٹوئٹر کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ کرونا وائرس سے نمٹنے سے متعلق کی گئی تنقیدی پوسٹس کو ہٹائیں۔ بعد ازاں ان احکامات کو نہ ماننے پر بھی انتظامیہ نے شکایت کی تھی۔
بھارتی حکومت اور ٹوئٹر کے درمیان حالیہ تنازع اس وقت سامنے آیا جب ان پلیٹ فارمز کے لیے حکومتی احکامات پر عمل کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن قریب آ رہی تھی۔
بی جے پی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج
دوسری جانب کانگریس نے بی جے پی ترجمان سمبت پاترا کی جانب سے مذکورہ دستاویزات کے لیے کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرانے پر پاترا اور بعض دیگر رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
ریاست چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں کانگریس کے اسٹوڈنٹ ونگ 'نیشنل اسٹوڈنٹس آف انڈیا' (این ایس یو آئی) کے ریاستی صدر آکاش شرما اور کانگریس کے یوتھ لیڈر کوکو پادھی کی جانب سے سمبت پاترا اور ریاست کے سابق بی جے پی وزیرِ اعلیٰ رمن سنگھ کے خلاف رپورٹس درج کرائی ہیں۔
واضح رہے کہ ریاست چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومت ہے۔
ان دونوں رہنماؤں کو اتوار کو سول لائنز چھتیس گڑھ پولیس کے سامنے پیش ہونا تھا لیکن وہ نہیں ہوئے۔ پولیس کے مطابق پاترا نے آئندہ ہفتے کی تاریخ مقرر کرنے کی درخواست کی ہے۔
رمن سنگھ کا کہنا ہے کہ کانگریس ریاست میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ہمیں ہدف بنا رہی ہے۔ اگر کانگریس ہمارے خلاف رپورٹ درج کرانا چاہتی ہے تو اسے ہمیں جیل بھیجنے میں کیا چیز رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
کانگریس کے رہنماؤں کو بھی نوٹس
دریں اثنا دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے کانگریس کے سوشل میڈیا سربراہ روہن گپتا اور پارٹی ترجمان ایم وی راجیو گوڈا کو مبینہ دستاویزات کے معاملے میں نوٹس جاری کیا ہے۔
بھارتی اخبار 'انڈین ایکسپریس' کے مطابق ایک سینئر پولیس اہلکار نے کہا ہے کہ ہم اس معاملے میں ملوث تمام لوگوں یا تنظیموں کے ذمہ داروں کو طلب کرنے علاوہ معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
پولیس اہلکار کے مطابق ہم نے اس لیے نوٹس جاری کیا ہے کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ مبینہ دستاویزات کے بارے میں ٹوئٹر کے پاس کیا اطلاعات ہیں اور کیوں اسے 'گمراہ کن معلومات' کے زمرے میں ڈالا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول ہم نے ٹوئٹر کے علاوہ شکایت کنندگان اور کانگریس کے نمائندوں کو بھی نوٹس جاری کیا ہے تاکہ وہ بھی تحقیقات میں شامل ہوں اور واقعات پر روشنی ڈالیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم پوچھ گچھ کے لیے بی جے پی ترجمان سمبت پاترا کو بھی نوٹس جاری کرنے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی بھارتی حکومت اور ٹوئٹر کے درمیان تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کسان تحریک سے متعلق سیکڑوں ٹوئٹس ہٹانے کی ہدایت کی گئی تھی جس پر کارروائی کرتے ہوئے ٹوئٹر نے بہت سی ٹوئٹس ہٹا دی تھیں۔
بعد ازاں وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے 22 مئی کو تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے پلیٹ فارم سے وہ تمام مواد ہٹائیں جن میں کرونا کی ایک قسم کو ”انڈین ویرینٹ“ کہا گیا ہے۔
'حکومت کو مداخلت کا کوئی حق نہیں'
سینئر تجزیہ کار اور کارواں میگزین کے پولیٹیکل ایڈیٹر ہرتوش سنگھ بل نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم سے گفتگو میں کہا ہے کہ ٹوئٹر نے اپنے قواعد و ضوابط کے مطابق سمبت پاترا کی ٹوئٹ کو ''مینی پولیٹڈ میڈیا'' کے زمرے میں شامل کیا ہے۔ لہٰذا اس میں حکومت کو مداخلت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'حکومت کی پروپیگنڈا مشینری فیک نیوز پھیلاتے ہوئے ہوئے پکڑی گئی ہے اور اب اس کو جائز ٹھہرانے کے لیے حکومت کی جانب سے کارروائی کی جا رہی ہے۔'
ان کے بقول اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتظامیہ، پولیس اور بیوروکریسی سب ''بی جے پی کا حصہ بن گئے ہیں۔''
وہ اس اندیشے کا اظہار کرتے ہیں کہ حکومت ایک بار پھر اپنی طاقت کا استعمال کرکے ٹوئٹر کو اپنا پابند بنانا چاہتی ہے اور جو حالات ہیں ان میں وہ کامیاب بھی ہو سکتی ہے۔ پہلے بھی ٹوئٹر نے حکومت کے کہنے پر بہت سی ٹوئٹس خاص کر کسان تحریک سے متعلق ٹوئٹس ہٹا دی تھیں۔
واضح رہے کہ حکام کی جانب سے سوشل میڈیا کمپنیوں فیس بک اور ٹوئٹر کو خبردار کیا گیا تھا کہ نئے قواعد کی عدم تعمیل پر ثالث کی حیثیت اور تحفظ کا حق کھو سکتا ہیں۔
بھارت میں اس وقت کرونا وائرس کی دوسری لہر جاری ہے اور ملک میں وبا کے مجموعی کیسز دو کروڑ ستر لاکھ کے قریب پہنچ چکے ہیں جب کہ اموات تین لاکھ سے زائد ہیں۔ بھارت میں کرونا بحران اپریل سے شدت اختیار کر گیا تھا اور یومیہ کیسز چار لاکھ اور اموات چار ہزار سے تجاوز کر گئی تھیں۔