بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہفتے کو علی الصبح مشتبہ عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان چار الگ الگ مقامات پر جھڑپیں ہوئیں۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک جھڑپ کے دوران، جو جنوبی ضلع کلگام کے نپورہ زاڈورہ گاؤں میں ہوئی، دو مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔
پولیس نے بتایا ہے کہ بھارتی فوج، مقامی پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ اور وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی طرف سے گاؤں کا محاصرہ کرنے کے بعد ایک نجی مکان میں محصور عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈال کر خود کو حفاظتی دستوں کے حوالےکرنے کا موقعہ فراہم کیا گیا تھا۔ لیکن، انہوں نے خود سُپردگی کی اس پیشکش کو جس کا اعلان پبلک ایڈریس سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے کیا گیا، ٹھکراتے ہوئے ان کے ساتھ لڑنے کو ترجیح دی۔
پولیس ترجمان نے کہا کہ "آپریشن کے دوران دہشت گردوں کو ہتھیار ڈال کر خود کو قانون کے حوالے کرنے کا موقعہ فراہم کیا گیا۔ لیکن، انہوں نے جواباً حفاظتی دستوں کے مشترکہ دستے پر فائرنگ کی اور دستی بم داغے جس کے بعد جوابی کارروائی کی گئی اور مقابلہ دو دہشت گردوں کی ہلاکت پر ختم ہوا۔ اُن کی شناخت کی جارہی ہے"۔
پولیس ذرائع کے مطابق، کُلگام میں جھڑپ ابھی جاری تھی کہ ہمسایہ اضلاع شوپیان کے ملہ ڈیرہ نامی گاؤں میں، اننت ناگ کے لالن مقام پر اور پُلوامہ کے ترال علاقے میں بھی مشتبہ عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوا۔
سری نگر میں بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیہ نے دعویٰ کیا کہ لالن میں دو مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ لیکن پولیس یا کسی آزاد ذریعے سے تاحال اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ مقامی ذرائع نے بتایا کہ شوپیان کے ملہ ڈیرہ گاؤں میں دو عسکریت پسند فوجی محاصرے میں پھنس گیے ہیں۔ تاہم، ترال میں ہونے والی مختصر جھڑپ کے بعد عسکریت پسند حفاظتی دستوں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں مقامی پولیس، فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں نے متنازع علاقے میں سرگرم عسکریت پسندوں اور ان کے حامیوں کے خلاف ایک زوردار اور سخت فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ گزشتہ چار ہفتے میں تیس سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔
کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں عسکری تنظیموں حزب المجاہدین، لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد کے کئی اعلیٰ کمانڈر بھی شامل تھے۔
سرکاری طور پر جاری کیے گیے اعداد و شمار کے مطابق، سیکیورٹی فورسز نے جموں و کشمیر میں اس سال اب تک 110 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس دوران کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائین پر 14 مزید مشتبہ عسکریت پسندوں یا 'در اندازوں' کو فائرنگ کے تبادلوں میں ہلاک کیا گیا۔
تاہم، وادی کشمیر اور جموں خطے کے کشتواڑ اور ڈوڈہ اضلاع میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مقابلوں یا ان کے حملوں میں 29 سیکیورٹی اہلکار بھی مارے گیے، جبکہ بارہ عام شہری بھی تشدد کا شکار ہوکر ہلاک ہوئے۔
بھارتی فوج کے مزید نو سپاہی کنٹرول لائین پر عسکریت پسندوں کے ساتھ مقابلوں یا پاکستانی فوج کی مبینہ فائرنگ میں مارے گیے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق، بھارتی فوج کے ساتھ کام کرنے والے دو مقامی مزدور اور پانچ دوسرے شہری بھی پاکستانی فائرنگ اور مارٹر شیلنگ میں ہلاک ہوئے۔ اس طرح بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں جاری تشدد میں اس سال اب تک مجموعی طور پر 183 افراد مارے گیے ہیں۔
لائین آف کنٹرول اور سیالکوٹ-جموں سرحد پر بھارتی فوج اور سرحدی حفاظتی دستے، بی ایس ایف کی فائرنگ اور شیلنگ میں پاکستانی علاقے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں اور املاک کو نقصان پہنچا ہے۔
تازہ واقعے میں جمعے کو حاجی پیر سیکٹر اور ضلع پونچھ کے کیرنی اور قصبہ علاقوں میں فوجوں کے درمیان ہلکے اور درمیانی درجے کے ہتھیاروں اور توپ خانے کا کئی گھنٹے تک تبادلہ جاری رہا، جس کے نتیجے میں بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں ایک خاتون ہلاک اور ایک زخمی اور پاکستانی کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک عمر رسیدہ خاتون ہلاک ہوگئیں۔
اس دوران وادی کشمیر کے شمالی ضلع بانڈی پور سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں کے رشتے داروں نے گلگت پولیس کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے کہ وہ انہیں بھارتی فوج نے جاسوسی کرنے کے لیے کنٹرول لائن کے پاکستانی علاقے میں بھیجا تھا۔
جمعے کو ایک ایسی ویڈیو منظرِ عام پر آئی تھی جس میں گلگت کے ایک پولیس عہدیدار مرزا حسن کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ 29 سالہ فیروز احمد لون اور 24 سالہ نور محمد وانی کو چرواہوں کے بھیس میں گلگت جاسوسی کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ لیکن پاکستانی فورسز نے انہیں گرفتار کرلیا۔
ویڈیو میں دونوں نوجوان اس بات کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں بھارتی فوج نے جاسوسی کرنے کے لئے پاکستانی علاقے میں بھیجا تھا۔ لیکن، بانڈی پور میں ان کے آبائی گاؤں اچھہ ڈورہ گریز میں، جو کنٹرول لائین کے قریب واقع ہے، ان کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے لاپتا ہوگیے تھے، لیکن انہیں یقین ہے کہ انہوں نے بھارتی فوج کے لیے جاسوسی کرنے کے لیے سرحد پار نہیں کی۔ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم سے اپیل کی ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کی رہائی اور گھر واپسی کو یقینی بنائیں۔