بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیاں میں تین اسپیشل پولیس افسران (ایس پی اوز) کے اغوا اور قتل سے پیدا شدہ تناؤ کے بعد سرکاری دستوں نے ’’واقعے میں ملوث افراد کو زندہ یا مردہ پکڑنے‘‘ کے لئے وسیع پیمانے پر آپریشن شروع کر دیا ہے۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ’ایس پی اوز‘، فردوس احمد کوچھے، کلونت سنگھ اور نثار احمد دھوبی کو مسلح افراد نے جمعہ کو علی الصباع شوپیان کے کاپرن اور بٹہ گنڈ علاقوں میں اُن کے گھروں میں گھس کر اغوا کیا تھا اور چند گھنٹے بعد ان کی لاشیں شوپیان ہی کے دنگم نامی گاؤں کے مضافات میں ملیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ چوتھے پولیس اہلکار کو جسےاُس کے گھر سے اغوا کیا گیا تھا، انہوں نے منت سماجت کرکے مسلح افراد سے چھڑا لیا۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس پی پانی نے ایس پی اوز کے اغوا اور قتل کو ایک بزدلانہ حرکت قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ "یہ ایک بزدلانہ حرکت ہے۔ اس طرح ہمارے تین ساتھیوں کو شہید کیا گیا۔ ہم یقین دلانا چاہتے ہیں کہ قانون کے دائرے میں جو کچھ بھی ضروری ہوگا ہم کریں گے۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "ہم اُن مقامی لوگوں کے شکر گزار ہیں جو سامنے آگئے تھے اور ہمارے ان لڑکوں کی جانیں بچانے کی کوشش کی تھی"۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ واقعے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے تو انہوں نے کہا کہ"اس موقعے پر ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ تحقیقات شد و مد سے جاری ہے۔ جو کچھ سامنے آئے گا اُسے لوگوں اور ذرائع ابلاغ کے سامنے رکھا جائے گا۔ ہم یہ یقین بھی دلانا چاہتے ہیں کہ مجرموں کو عنقریب کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا"۔
تاہم، بعد میں پولیس عہدیداروں نے اغوا اور قتل کے اس واقعے کے لئے عسکری تنظیم حزب المجاہدین اور لشکرِ طیبہ کو ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ مجرموں کو پکڑنے کے لئے کارروائی جاری ہے۔
حزب المجاہدین یا لشکرِ طیبہ کی طرف سے اس سلسلے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم کسی دوسری عسکری تنظیم نے پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
تاہم، عہدہداروں نے کہا ہے کہ انہیں اغوا اور قتل کے اس سنسنی خیز واقعے میں حزب المجاہدین کے ملوث ہونے کے بارے میں کچھ شواہد اور ثبوت ہاتھ لگے ہیں۔
پولیس نے کہا ہے کہ مقامی لوگوں نے مسلح افراد کا تعاقب کیا تھا۔ لیکن، انہوں نے ہوا میں فائرنگ کرکے انہیں ڈرایا اور پھر اغوا کئے گئے افراد کے ساتھ ایک پہاڑی ندی پار کی۔
ہلاک کئے گئے ایس پی او نثار احمد کے بھائی بشیر احمد نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ"ہم نے بندوق برداروں سے انہیں گزند پہنچائے بغیر رہا کرنے کی استدعا کی تھی۔ انہوں نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ ان (اغوا کئے گئے افراد) کی ویڈیو بنائی جائے گی اور پھر انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ کچھ دیر کے بعد ہم نے فائرنگ کی آواز سنی۔ ہمیں لگا فوج نے فائرنگ کی ہے۔ لیکن بعد میں ہمیں تینوں کی گولیوں سے چھلی لاشیں ملیں"۔
عہدیداروں نے ایک ایسے ویڈیو پیغام کا بھی حوالہ دیا ہے جو، ان کے بقول، حزب المجاہدین سے وابستہ عمر مجید گروپ کی طرف سے منگل کے روز سوشل میڈیا پر ڈالا گیا تھا، جس میں اس کے ایک کمانڈر عمر بن خطاب کو اسپیشل پولیس افسران کو مستعفی ہونے یا پھر مرنے کے لئے تیار رہنے کی دھمکی دیتے ہوئے سنا جا سکتا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس سے پہلے اگست کے مہینے میں پولیس کی طرف سے حزب المجاہدین کے ایک اعلیٰ کمانڈر ریاض احمد نائیکو کے والد اور ایک اور معروف عسکریت پسند کے تین قریبی رشتے داروں کو حراست میں لینے کے بعد تنظیم نے جنوبی کشمیر کے مختلف علاقوں سے تین پولیس اہلکاروں اور ان کے ساتھیوں کے سات رشتے داروں کو اغوا کیا تھا۔ لیکن جب پولیس نے عسکریت پسندوں کے رشتے داروں کو رہا کیا تو عسکریت پسندوں نے بھی اغوا کئے گئے تمام افراد کو کوئی گزند پہنچائے بغیر چھوڑ دیا تھا اور اس طرح یہ ٹکراؤ تین دن کے بعد پُر امن طور پر ختم ہوگیا تھا۔
اس واقعے نے ایک بڑے تنازعے کو جنم دیا تھا اور جیسا کہ بھارتی ذرائع ابلاغ میں آیا تھا یہ ریاست کے پولیس سربراہ شیش پال وید کو نامناسب انداز میں ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کی ایک بڑی وجہ بن گیا۔
اغوا اور قتل کے تازہ واقعے کے بعد جمعے کو سوشل میڈیا کے ذریعے کم سے کم نصف درجن ایس پی اوز اور پولیس اہلکاروں نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا اور پولیس فورس میں شامل ہونے کے لئے عسکریت پسندوں سے معافی مانگی۔
لیکن، بھارت کی وزارتِ داخلہ نے اس حوالے سے ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبروں کو "غلط اور اُکسانے والی" قرار دیدیا۔ نئی دہلی میں جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس طرف کی رپورٹیں شرارتی عناصر کی طرف سے کئے جانے والے جھوٹے پروپیگنڈا پر مبنی ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ"جموں و کشمیر میں ایک پیشہ ور اور پُر عزم پولیس فورس موجود ہے جو حفاظتی چیلنیجز کا جو عنقریب ہونے والے پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات سے متعلق بھی ہیں مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔"
بیان میں وضاحت کی گئی کہ ریاست میں تیس ہزار ایس پو اوز ہیں جن کی خدمات کا مختلف اوقات پر جائزہ لیا جاتا ہے اور کچھ شرارتی عناصر ان اہلکاروں کو جن کی خدمات کی انتظامی وجوہات کی بنا پر تجدید نہیں کی گئی ایسے اہلکار کے طور پر پیش کررہے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ مستعفی ہوگئے ہیں۔
بیان کے مطابق، "جموں و کشمیر میں شدت پسندوں کے پاؤں لڑکھڑا رہے ہیں۔ اس سال صرف شوپیان میں تیس عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔ جموں و کشمیر کی پولیس کی فعال سرگرمیوں کی وجہ سے شدت پسند پیچیدہ صورتِ حال میں گر چکے ہیں اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں"۔
ایس پی اوز کی ہلاکت پر بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں نے مذمت کی ہے۔
تاہم، سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ"پولیس اہلکاروں اور ان کے اہلِ خانہ کے اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتیں یہ واضح کرتی ہیں کہ وفاق کی دھونس اور دباؤ کی پالیسی کام نہیں کر رہی ہے۔ مکالمہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے لیکن لگتا ہے کہ یہ اب دیوانے کا خواب ہوکر رہ گیا ہے۔"