بھارت کے آرمی چیف جنرل منوج مکند نرونے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے چھ روزہ سرکاری دورے پر ہیں۔ تجزیہ کار خطے کی موجودہ صورتِ حال اور مبینہ طور پر پاکستان کے ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کے پیشِ نظر اس دورے کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
جنرل نرونے متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں جس کے بعد وہ سعودی عرب جائیں گے۔ دورے کے دوران بھارتی آرمی چیف دونوں ممالک کے اعلٰی فوجی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
وہ 13 اور 14 دسمبر کو سعودی عرب جائیں گے اور ریاض میں سینئر سیکیورٹی حکام سے ملاقات کے علاوہ رائل سعودی لینڈ فورس اور جوائنٹ فورس کمانڈ کے ہیڈ کوارٹرز اور کنگ عبد العزیز وار کالج کا بھی دورہ کریں گے۔
جنرل نرونے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کا بھی دورہ کریں گے اور اس موقع پر طلبہ اور اُساتذہ سے خطاب کریں گے۔
اگر چہ اس دورے کے ایجنڈے کی تفصیلات واضح نہیں کی گئی ہیں تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے بھارت اور عالمِ اسلام کے تعلقات کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
یہ دورہ ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب خلیجی ملکوں اور دنیا میں اہم سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور خلیجی ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات استوار کر رہے ہیں۔
فوج کے ایک بیان کے مطابق یہ دورہ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ کسی بھی بھارتی آرمی چیف کا متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا یہ پہلا سرکاری دورہ ہے۔
ذرائع کے مطابق دورے کے دوران ان دونوں ملکوں کے ساتھ مشترکہ فوجی مشق، تربیت اور مشترکہ طور پر دفاعی آلات کی تیاری کے سلسلے میں بھی تبادلۂ خیال ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت جب کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں سردمہری ہے اور پاکستان، چین، ایران اور ترکی کا ایک نیا اتحاد ابھر رہا ہے۔ ایسے میں بھارت کے نقطۂ نظر سے یہ دورہ کافی اہم ہے۔
تاہم حکومتِ پاکستان سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے تعلقات میں تناؤ کی خبروں کی تردید کرتی رہی ہے۔
مغربی ایشیائی امور کے ماہر پروفیسر اے کے پاشا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ خلیجی ملکوں سے بھارت کے رشتے پہلے بھی اچھے رہے ہیں۔ لیکن وہ تیل اور گیس کی درآمد اور بھارتی شہریوں کے خلیج میں کام کرنے اور زرِ مبادلہ بھارت بھیجنے تک محدود تھے۔ مگر اب وہ کافی آگے جا چکے ہیں۔
ان کے مطابق خلیجی ملکوں سے بھارت کے اب اسٹرٹیجک تعلقات قائم ہو گئے ہیں۔ ان میں دفاعی شعبوں، دہشت گردی کے خلاف جنگ، سائبر سیکیورٹی اور بحری اُمور کے شعبوں میں تعاون کافی بڑھ گیا ہے۔
پروفیسر اے کے پاشا کے بقول اتحادیوں کے درمیان جو تعاون ہوتا ہے اسی طرح ان ملکوں کے ساتھ بھارت کے تعاون میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خلیجی ممالک ایران کی بڑھتی فوجی قوت سے خوف زدہ ہیں۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ بھارت سے ان کے رشتے مضبوط ہوں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایشیا میں ایک نئے اتحاد کے ابھرنے کی وجہ سے بھی امریکہ اور اسرائیل، بھارت کو ہتھیار فراہم کرکے اس کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔
پروفیسر اے کے پاشا کے مطابق ایران کی بڑھتی ہوئی فوجی قوت کے پیشِ نظر امریکہ خلیجی ملکوں کے ساتھ مل کر بھارت کو ہتھیار فراہم کر کے اسے اپنے مقصد کے لیے تیار کر رہا ہے۔
ان کے بقول بھارت رفتہ رفتہ امریکہ کے گروپ میں شامل ہو گیا ہے جس میں جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا بھی شامل ہیں اور یہ ممالک چین کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی اپنا رہے ہیں۔
اُن کے بقول اب خلیج ایران کے خلاف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کا ایک بڑا اتحاد بن رہا ہے جس میں بظاہر بھارت کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
روایتی طور پر بھارت کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ تاہم کچھ عرصہ قبل ایران نے چاہ بہار بندرگاہ منصوبے سے بھارت کو الگ کر دیا تھا۔
بعض تجزیہ کاروں کے بقول پاکستان کے تعاون سے چین اور ایران کے تعلقات میں بہتری اور چین کی ایران میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے بھارت اور ایران کے درمیان دُوریاں بڑھ رہی ہیں۔
اے کے پاشا کے مطابق بھارت کو اسرائیل کے توسط سے رضامند کر کے خلیجی ملکوں کی سیکورٹی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ اس دورے کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔