بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع پر کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور چین نے جرمنی میں گروپ 20 کے سربراہ اجلاس کے موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ چینی صدر شی جن پنگ کی مجوزہ ملاقات منسوخ کر دی ہے۔
چین نے یہ فیصلہ ایسے وقت کیا ہے جب سکم کے علاقے میں بھارت، چین اور بھوٹان کی سرحد پر بھارتی فوجیوں کی تعیناتی سے دونوں ملکوں کے درمیان تنازع بڑھتا جا رہا ہے۔
چینی حکام نے کہا ہے کہ دونوں سربراہانِ مملکت کی ملاقات کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے۔ البتہ بھارتی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ایسی کوئی ملاقات طے ہی نہیں پائی تھی۔
بھارت میں چینی سفارتخانے کے پولیٹیکل قونصلر لی یا نے بھارتی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ سکم سے اپنے فوجی غیر مشروط طور پر واپس بلائے تاکہ دونوں فریقوں کے مابین تمام تنازعات کو حل کرنے کے لیے بامعنی مذاکرات کا آغاز کیا جا سکے۔
حالیہ سرحدی تنازع پر چین کے سرکاری میڈیا کا مزاج خاصا جارحانہ ہے۔ چینی سرکاری ذرائع ابلاغ نے تجزیہ کاروں کے حوالے سے کہا ہے کہ اگر بھارت تاریخ سے سبق سیکھنے سے انکار کرتا ہے تو بیجنگ فوجی راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔
بھارت کے ایک دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی کہتے ہیں کہ چین اور بھارت سیاسی، اقتصادی اور فوجی اعتبار سے ایک دوسرے کے مساوی نہیں ہیں اور ان میں بہت فرق ہے۔ ایسے میں اگر بھارت خود کو چین کے مساوی دکھانے کی کوشش کرے گا تو بیجنگ اِسے تسلیم نہیں کرے گا۔
پروین ساہنی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں یہ بہت سنگین معاملہ ہے کیونکہ اگر بھارت اپنے فوجی واپس بلاتا ہے تو خطے میں اس کا وقار مجروح ہوگا۔ اور اگر وہ جوانوں کو واپس نہیں بلاتا جنھیں ان کے بقول بغیر سوچے سمجھے بھیج دیا گیا ہے، تو یہ بھی خطرناک ہوگا۔
پروین ساہنی کے بقول جب چین نے علاقے میں سڑک کی تعمیر شروع کی تھی تو اسی وقت بھارت کو سفارتی سطح پر اس معاملے کو اٹھانا چاہیے تھا۔ لیکن ان کے بقول مودی حکومت ہر معاملے میں جارحانہ انداز اختیار کرتی ہے۔
پروین ساہنی کہتے ہیں کہ بھارت جس طرح پاکستان کے ساتھ پیش آتا ہے، ویسا چین کے ساتھ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ صورت حال بہت نازک ہو گئی ہے اور اگر بھارت وہاں اپنے جوان تعینات رکھتا ہے تب بھی مشکل ہے اور واپس بلاتا ہے تب بھی مشکل ہے۔
واضح رہے کہ سکم کے نزدیک ڈوکلام کے سرحدی علاقے میں چینی افواج نے ایک سڑک کی تعمیر شروع کی تھی جس کی بھارت نے یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ اس سے اس کی سیکورٹی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ بھارت نے علاقے میں اپنے فوجی دستے تعینات کردیے ہیں جو وہاں گشت کرتے رہتے ہیں۔
چین نے بھارت کے اس قدم کو 1890ء کے سرحدی سمجھوتے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے جس پر چینی حکام کے مطابق بھارت کی سابق حکومتیں ہمیشہ عمل پیرا رہی ہیں۔
بھارت کا کہنا ہے کہ 2012ء میں ہونے والے باہمی معاہدے میں دونوں ملکوں نے رضامندی ظاہر کی تھی کہ چین، بھوٹان اور بھارت سے متصل سرحد کا حتمی فیصلہ متعلقہ ملکوں کے صلاح و مشورے سے کیا جائے گا۔
بیجنگ ڈوکلام کے علاقے کو متنازع ماننے سے انکار کرتا ہے اور اسے چین کا حصہ قرار دیتا ہے۔
اس معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان 19 روز سے کشیدگی جاری ہے اور تجزیہ کار اسے 1962ء میں ہونے والی بھارت اور چین کی جنگ کے بعد سے اب تک کی سب سے نازک صورت حال بتا رہے ہیں۔