انتہائی دوطرفہ کشیدہ تعلقات کے باوجود پاکستان اور بھارت کے مابین سندھ طاس معاہدے کے تحت آبی وسائل کے معاملات پر باہمی مذاکرات میں شرکت کے لیے ایک بھارتی وفد اتوار کو پاکستان پہنچا ہے۔
پیر سے شروع ہونے والے دو روزہ اجلاس میں توقع ہے کہ فریقین خاص طور پر معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم کی طرفین کی طرف سے کی جانے والی مبینہ خلاف ورزیوں اور تحفظات پر تبادلہ خیال کریں گے۔
57 سال پہلے طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس کے پانیوں پر پہلا حق بھارت کا ہے جب کہ تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کے 80 فیصد پانی کا حقدار پاکستان ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت دریائے جہلم اور چناب پر بجلی کی پیداوار کے لیے کشن گنگا اور رتلا ڈیم بنا کر اس کے حصے کے پانی میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ لیکن بھارت ان تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ وہ معاہدے کے مطابق صرف اپنے بیس فیصد پانی کو ہی استعمال میں لا رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے مستقبل کے بارے میں اس وقت شکوک و شبہات میں اضافہ ہو گیا تھا جب گزشتہ سال ستمبر میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے یہ دھمکی دی تھی کہ بھارت پاکستان کے لیے دریاؤں کا پانی بند کر سکتا ہے۔
پاکستان میں وزارت پانی و بجلی کے سابق سیکرٹری مرزا حامد حسن پیر سے شروع ہونے والے اجلاس کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر دونوں ملک ماضی کے برعکس لچک کا مظاہرہ کریں گے تو اس سے مثبت پیش رفت کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
"خاص طور پر بھارت کیونکہ شکایت تو ہمیں ہے جس کی وجہ سے ہم یہ جھگڑا عالمی بینک کے پاس لے کر گئے تھے اگر بھارت کی طرف سے کچھ لچک دکھائی گئی اور بات چیت مثبت انداز میں ہوئی تو یقیناً یہ بہتر ہو گا۔ لیکن اگر وہی موقف رہا جو پہلے تھا تو اس صورت میں تو ظاہر ہے کہ کوئی نتیجہ نکلنے کی امید نہیں ہے۔ لیکن خیال یہ ہے کہ اب وہ بات چیت کے لئے راضی ہیں تو انھوں نے اپنے موقف پر کوئی نظر ثانی کی ہو گی اور اس کی نتیجے میں کچھ بات آگے بڑھے۔"
دونوں ملکوں کے درمیان یہ معاہدہ عالمی بینک کی نگرانی میں ہوا تھا اور اپنی شکایات کے ازالے کے لیے پاکستان اور بھارت نے گزشتہ سال ورلڈ بینک کو ثالثی کے لیے اقدام کرنے کی درخواست کی تھی۔ تاہم عالمی بینک نے اسے باہمی طور پر حل کرنے کا کہا تھا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے عہدیداروں کو سال میں کم از کم ایک بار ملاقات کر کے آبی وسائل کی تقسیم پر تبادلہ خیال کرنا ہوتا ہے لیکن گزشتہ سال بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کے علاقے اوڑی میں ایک فوجی اڈے پر عسکریت پسندوں کے مبینہ حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے اس ضمن میں مذاکرات معطل کر دیے تھے۔
پاکستان، بھارت کے ایسے دعوؤں کو مسترد کرتا ہے۔