دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت کے انتخابات کے مراحل جمعرات سے شروع ہونے والے ہیں۔ جس کے لیے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے آپ کو ایک مضبوط قوم پرست رہنما کے طور پر پیش کیا ہے۔ ایک طرف جہاں مودی دوسری بار منتخب ہونے کے لئے پر امید ہیں وہیں کانگریس ووٹروں کو ایک فلاحی ریاست کی امید دلا کر اقتدار میں آنا چاہتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا خیال ہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے بعد پیدا ہونے والے قوم پرستی کے جذبات کا سہارا لے کر وہ یہ انتخابات جیت سکتی ہے۔
بی جے پی گرتی ہوئی دیہی معیشت کے پیش نظر کسانوں کو پینشن دینے کا وعدہ کر رہی ہے۔ جب کہ دوسری جانب بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے ووٹر مودی سے ناراض ہیں کیونکہ 2014 میں ان کا وعدہ روزگار کی فراہمی کا تھا۔
اگرچہ کہ وزیراعظم کی شہرت میں کمی واقع ہوئی ہے مگر ابھی بھی پولز کے مطابق ان کے نمبر اپنے سب سے بڑے حریف راہول گاندھی سے زیادہ ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں قومی سلامتی کے معاملات لوگوں کے روزمرہ کے مسائل کی نسبت زیادہ بحث میں آ رہے ہیں۔
جین یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سندیپ شاستری کا کہنا ہے کہ ‘‘ووٹروں کا ایک بڑا حصہ بی جے پی کو ووٹ اس کی قیادت کی وجہ سے دے گا۔ دوسرا حصہ نظریات کی وجہ سے اور ایک اور بڑا حصہ بی جے پی کو ووٹ صرف اس لئے دے گا کہ اسے کوئی اور متبادل دکھائی نہیں دے رہا۔
نہرو خاندان کی پانچویں پیڑھی سے تعلق رکھنے والے راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس بھی اس بار اقتدار واپس لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ 2014 کے انتخابات میں کانگریس کو اپنی تاریخ کی سب سے بڑی شکست ہوئی تھی۔
کانگریس کا خیال ہے کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی غربت ان انتخابات میں ‘‘گیم چینجر’’ ثابت ہو گی۔ پچھلے برس کانگریس نے صوبائی انتخابات میں تین ریاستیں بی جے پی سے جیت لی ہیں، اس لئے کانگریس کی امیدیں ان انتخابات میں بہت زیادہ ہیں۔
ان انتخابات میں علاقائی پارٹیوں کا کردار بہت اہم ہو گا۔ اگر دونوں بڑی پارٹیاں پارلیمنٹ میں اکثریت لینے میں ناکام رہتی ہیں تو علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد ہی انہیں اقتدار تک لے جا سکتا ہے۔ بھارت کی اکثر علاقائی پارٹیوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ ایسے موقع پر وہ بی جے پی کے خلاف اتحاد میں شامل ہوں گی۔
اتر پردیش کی دو علاقائی پارٹیوں نے، جہاں بی جے پی نے پچھلے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی تھی، کہا ہے کہ وہ بی جے پی کے خلاف اتحاد کریں گی۔ ان پارٹیوں کو نچلی ذات کے ہندو اور مسلمان ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔
اسی طرح ہی بی جے پی نے بھی چند علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ بی جے پی کی انتخابی مہم کا محور نریندر مودی کی ذات ہے، جن کا نعرہ ہے کہ وہ ‘‘ہندوستان کے چوکیدار’’ ہیں اور یہ کہ ‘‘اگر مودی ہے تو سب ممکن ہے’’۔
بہت سے لوگ مودی کو ایک اور چانس دینا چاہتے ہیں۔ دہلی میں ایک کنسٹرکشن ورکر ببلو سنگھ کا کہنا ہے کہ ‘‘وہ ہمارے گاؤں میں ترقی لے کر آئے ہیں، انہوں نے ٹوائلٹ، روڈ اور بجلی فراہم کی ہے۔‘‘
ایک سیاسی ماہر نیرجا چوہدری کا کہنا ہے کہ ‘‘2019 کے انتخابات کا تعلق نریندر مودی کی ذات سے بہت زیادہ ہے۔ یہ انتخابات مودی کی حمایت اور مخالفت میں ہیں۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ مودی کے دور میں شہری آزادیوں میں کمی ہوئی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور دیہی علاقوں میں بے چینی بڑھی ہے۔’’
انتخابات سے پہلے کیے گئے پولز کے مطابق بی جے پی اور اس کے اتحادی قلیل اکثریت سے انتخابات جیت سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا کنٹرول چھ ہفتے بعد 23 مئی کو کون لے گا۔