پاکستان میں بھارتی فلمیں سب دیکھتے اور سب ہی اس پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ اس ’کمال‘ کی وجوہات سیاسی ہیں، کیا غیر سیاسی؟ پیش ہے عوامی رائے پر مشتمل ایک مختصر جائزہ
کراچی —
بھارتی فلموں کو پاکستان میں نمائش پر عدالتی پابندی کا رہا سہا خطرہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ غیر ملکی فلموں، ڈراموں، شوز اور اشتہارات کی پاکستان درآمد سے متعلق لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواستیں واپس لے لی گئیں ہیں، اور یوں، پابندی کا رہا سہا جواز بھی شاید ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا ہے۔
پسندیدگی کے باوجود سخت تنقید
پاکستان میں بھارتی فلموں کی پذیرائی کا عالم جنون کی حدوں کو چھورہا ہے۔ کچھ فیصد لوگوں کو چھوڑ کر غالب اکثریت بھارتی فلمیں دیکھتی ہے، بھارتی میوزک سنتی ہے، نجی محفلوں سے لیکر میڈیا تک میں ہر جگہ انہی فلموں اور موسیقی کا ’بول بالا‘ ہے۔ لیکن، اس کے باوجود، سب سے زیادہ تنقید بھی اسی موضوع پر کی جاتی ہے۔ اکثر و بیشتر یہ کہا جاتا ہے کہ فلمیں ماحول بگاڑ رہی ہیں۔ پرایا کلچر عام ہورہا ہے۔ لیکن، اس سب کے باوجود، فلمیں وہیں کی دیکھی جاتی ہیں۔
پسندیدگی کے باوجود، تنقید کی اصل وجہ کیا ہے؟ حقائق کیا کہتے ہیں؟ اور ۔۔۔عام رائے کیا ہے؟ ان فلموں کی نمائش سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوا اور مستقبل میں کیا اقدامات اٹھانا چاہئیں؟ اس حوالے سے ’وی او اے‘ کے نمائندے نے مختلف لوگوں سے ان کے نظریات جاننے کی کوشش کی، جو ذیل میں من و عن پیش کئے جا رہے ہیں۔
بھارتی فلموں سے پاکستان کو کیا ملا؟
یہ سوال بھی بہت عام ہے کہ بھارتی فلموں نے پاکستان کو کیا دیا؟ شہر کے ایک پوش علاقے میں واقع جدید ترین سنیما کے مالک جو اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے، وہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی، بھارتی فلموں کے کاندھے پر چڑھ کر آئی ہے۔ ان فلموں کی نمائش سے ملک میں تفریحی ذرائع خاص کر فلموں کا پس منظر ایسا بدلہ ہے کہ آج ہر شخص پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی کے روشن امکانات دیکھ رہا ہے‘۔
اُن کا کہنا ہے کہ عشروں بعد، رواں سال کئی پاکستانی فلموں کو غیر معمولی کامیابی ملی ہے، بعض فلموں پرلاکھوں لگا کر کروڑوں کا بزنس ہوا ہے۔ ’میرے خیال میں، اگر کوئی یہ پوچھتا ہے کہ بھارتی فلموں سے پاکستان کو کیا ملا، تو وہ یا تو اس ملک میں نیا آیا ہے یا وہ عسکری صدرو کے دور حکومت میں تفریحی پر لگنے والی پابندیوں سے واقف نہیں۔‘
کراچی کی ایک نوجوان فلم بین عظمیٰ کا کہنا ہے کہ آج ملک کےتمام اخبارات میں پورے پورے صفحات بالی ووڈ کی فلمی خبروں سے پُر ہوتے ہیں۔ ٹی وی کا کوئی نیوز بلیٹن ایسا نہیں ہوتا جس میں دو چار فلمی خبریں نہ ہوں۔ ہر چینل سے بھارتی فلموں، شوز، کھیل ، ڈراموں اور پروگرامز کی نمائش عام ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ، ایک آدھ چینل تو ایسا بھی ہے جو ملکی ڈرامے پیش ہی نہیں کرتا۔ بلکہ، 99فیصد پروگرام بھارتی ہیں۔ یہ سب کچھ اسی لئے ہے کہ لوگ فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ چینلز اور اخبارات کو کروڑں کا بزنس مل رہا ہے۔ رہی بات تنقید کی تو اس کی وجوہات سیاسی ہیں۔ آپ کے الفاظ میں، ’ہمارے بھارت سے سیای تعلقات اچھے نہیں اس لئے تنقید کی گنجائش نکل آتی ہے۔ ورنہ بالی ووڈ فلمیں دبئی سمیت مشرق وسطیٰ کے تمام اسلامی ممالک میں دیکھی جاتی ہیں۔۔۔کیا ان کی معاشرت اور مذہب کو ان فلموں سے کوئی خطرہ نہیں؟ کیا وہاں کے عقائد مختلف ہیں؟‘
بھارتی فلمیں ۔۔کسی صورت میں قابل قبول۔۔؟
بھارتی فلموں کی نمائش سے متعلق مختلف نظریہ رکھنے والے ایک شہری ذوالفقار کا کہنا ہے: ’بھارتی فلموں سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ان کے عقائد اور ہمارے عقائد بھی مختلف ہیں اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بھارتی نظریہ شروع ہی سے پاکستان سے مختلف رہا ہے اگر ان فلموں میں پاکستان مخالف عنصر نکال دیا جائے تو شاید سب کو یہ فلمیں قابل قبول بن جائیں۔ دوسرے پاکستان کو سنسر پالیسی سخت کرنا ہوگی اگر قابل اعتراض مواد سنسر کردیا جائے تو بھی اس تنقید میں کچھ کمی آسکتی ہے۔ ایک کام کی ابتدا بھارت کرے تو دوسرے کی ابتدا پاکستان۔‘
بھارت کے ساتھ ساتھ اب پاکستان میں ترکی کے ڈراموں اور فلموں کا رجحان بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کراچی میں موجود ترکی کے قونصل خانے میں مترجم کے فرائض انجام دینے والے عبدالرحمٰن کا کہنا ہے،’بے شک، پچھلے کچھ سالوں سے ترکی ڈراموں کی مانگ پاکستان میں بڑھی ہے۔ لیکن، بھارتی فلموں کے مقابلے میں کچھ کم۔ یہ بدلتے ہوئے عالمی تناظر کی دین ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ اپنی بنسی الگ بجائی جائے۔ آج کی دنیا سمٹ کر سوشل میڈیا میں سما گئی ہے۔ کس ملک میں کیا ہورہا ہے۔ پبلک کا رجحان کس طرف ہے۔ میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس صورتحال میں پڑوسی ممالک کو تو ایک دوسرے سے مراسم ویسے بھی بہت قریبی رکھنا ہوں گے ۔۔۔بھارتی فلم ساز پاکستانی جذبات کا خیال رکھیں، اور منفی مواد نہ اپنائے جس سے عوامی قربیتں بڑھنے کے بجائے دوریاں پیداہوں۔‘
پسندیدگی کے باوجود سخت تنقید
پاکستان میں بھارتی فلموں کی پذیرائی کا عالم جنون کی حدوں کو چھورہا ہے۔ کچھ فیصد لوگوں کو چھوڑ کر غالب اکثریت بھارتی فلمیں دیکھتی ہے، بھارتی میوزک سنتی ہے، نجی محفلوں سے لیکر میڈیا تک میں ہر جگہ انہی فلموں اور موسیقی کا ’بول بالا‘ ہے۔ لیکن، اس کے باوجود، سب سے زیادہ تنقید بھی اسی موضوع پر کی جاتی ہے۔ اکثر و بیشتر یہ کہا جاتا ہے کہ فلمیں ماحول بگاڑ رہی ہیں۔ پرایا کلچر عام ہورہا ہے۔ لیکن، اس سب کے باوجود، فلمیں وہیں کی دیکھی جاتی ہیں۔
پسندیدگی کے باوجود، تنقید کی اصل وجہ کیا ہے؟ حقائق کیا کہتے ہیں؟ اور ۔۔۔عام رائے کیا ہے؟ ان فلموں کی نمائش سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوا اور مستقبل میں کیا اقدامات اٹھانا چاہئیں؟ اس حوالے سے ’وی او اے‘ کے نمائندے نے مختلف لوگوں سے ان کے نظریات جاننے کی کوشش کی، جو ذیل میں من و عن پیش کئے جا رہے ہیں۔
بھارتی فلموں سے پاکستان کو کیا ملا؟
یہ سوال بھی بہت عام ہے کہ بھارتی فلموں نے پاکستان کو کیا دیا؟ شہر کے ایک پوش علاقے میں واقع جدید ترین سنیما کے مالک جو اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے، وہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی، بھارتی فلموں کے کاندھے پر چڑھ کر آئی ہے۔ ان فلموں کی نمائش سے ملک میں تفریحی ذرائع خاص کر فلموں کا پس منظر ایسا بدلہ ہے کہ آج ہر شخص پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی کے روشن امکانات دیکھ رہا ہے‘۔
اُن کا کہنا ہے کہ عشروں بعد، رواں سال کئی پاکستانی فلموں کو غیر معمولی کامیابی ملی ہے، بعض فلموں پرلاکھوں لگا کر کروڑوں کا بزنس ہوا ہے۔ ’میرے خیال میں، اگر کوئی یہ پوچھتا ہے کہ بھارتی فلموں سے پاکستان کو کیا ملا، تو وہ یا تو اس ملک میں نیا آیا ہے یا وہ عسکری صدرو کے دور حکومت میں تفریحی پر لگنے والی پابندیوں سے واقف نہیں۔‘
کراچی کی ایک نوجوان فلم بین عظمیٰ کا کہنا ہے کہ آج ملک کےتمام اخبارات میں پورے پورے صفحات بالی ووڈ کی فلمی خبروں سے پُر ہوتے ہیں۔ ٹی وی کا کوئی نیوز بلیٹن ایسا نہیں ہوتا جس میں دو چار فلمی خبریں نہ ہوں۔ ہر چینل سے بھارتی فلموں، شوز، کھیل ، ڈراموں اور پروگرامز کی نمائش عام ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ، ایک آدھ چینل تو ایسا بھی ہے جو ملکی ڈرامے پیش ہی نہیں کرتا۔ بلکہ، 99فیصد پروگرام بھارتی ہیں۔ یہ سب کچھ اسی لئے ہے کہ لوگ فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ چینلز اور اخبارات کو کروڑں کا بزنس مل رہا ہے۔ رہی بات تنقید کی تو اس کی وجوہات سیاسی ہیں۔ آپ کے الفاظ میں، ’ہمارے بھارت سے سیای تعلقات اچھے نہیں اس لئے تنقید کی گنجائش نکل آتی ہے۔ ورنہ بالی ووڈ فلمیں دبئی سمیت مشرق وسطیٰ کے تمام اسلامی ممالک میں دیکھی جاتی ہیں۔۔۔کیا ان کی معاشرت اور مذہب کو ان فلموں سے کوئی خطرہ نہیں؟ کیا وہاں کے عقائد مختلف ہیں؟‘
بھارتی فلمیں ۔۔کسی صورت میں قابل قبول۔۔؟
بھارتی فلموں کی نمائش سے متعلق مختلف نظریہ رکھنے والے ایک شہری ذوالفقار کا کہنا ہے: ’بھارتی فلموں سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ ان کے عقائد اور ہمارے عقائد بھی مختلف ہیں اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بھارتی نظریہ شروع ہی سے پاکستان سے مختلف رہا ہے اگر ان فلموں میں پاکستان مخالف عنصر نکال دیا جائے تو شاید سب کو یہ فلمیں قابل قبول بن جائیں۔ دوسرے پاکستان کو سنسر پالیسی سخت کرنا ہوگی اگر قابل اعتراض مواد سنسر کردیا جائے تو بھی اس تنقید میں کچھ کمی آسکتی ہے۔ ایک کام کی ابتدا بھارت کرے تو دوسرے کی ابتدا پاکستان۔‘
بھارت کے ساتھ ساتھ اب پاکستان میں ترکی کے ڈراموں اور فلموں کا رجحان بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کراچی میں موجود ترکی کے قونصل خانے میں مترجم کے فرائض انجام دینے والے عبدالرحمٰن کا کہنا ہے،’بے شک، پچھلے کچھ سالوں سے ترکی ڈراموں کی مانگ پاکستان میں بڑھی ہے۔ لیکن، بھارتی فلموں کے مقابلے میں کچھ کم۔ یہ بدلتے ہوئے عالمی تناظر کی دین ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ اپنی بنسی الگ بجائی جائے۔ آج کی دنیا سمٹ کر سوشل میڈیا میں سما گئی ہے۔ کس ملک میں کیا ہورہا ہے۔ پبلک کا رجحان کس طرف ہے۔ میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس صورتحال میں پڑوسی ممالک کو تو ایک دوسرے سے مراسم ویسے بھی بہت قریبی رکھنا ہوں گے ۔۔۔بھارتی فلم ساز پاکستانی جذبات کا خیال رکھیں، اور منفی مواد نہ اپنائے جس سے عوامی قربیتں بڑھنے کے بجائے دوریاں پیداہوں۔‘