بھارت میں کم عمری میں شادی کے خلاف تحریک

بھارت کی لگ بھگ نصف خواتین کی شادی 18 برس سے کم عمر میں ہوجاتی ہے جب کہ ان میں سے کئی ایسی ہوتی ہیں جنہیں کہیں زیادہ کم عمری میں ہی سسرال رخصت کردیا جاتا ہے۔
بھارت میں بچوں کی کم عمری میں شادی کی ریت بہت پرانی ہے اور غیر قانونی قرار پانے کے باوجود اب بھی بیشتر دیہی علاقوں میں یہ چلن عام ہے۔

ایک اندازے کے مطابق بھارت کی لگ بھگ نصف خواتین کی شادی 18 برس سے کم عمر میں ہوجاتی ہے جب کہ ان میں سے کئی ایسی ہوتی ہیں جنہیں کہیں زیادہ کم عمری میں ہی سسرال رخصت کردیا جاتا ہے۔

سولہ سالہ بٹیکا داس خود بھی اسی صورتِ حال سے گزر چکی ہے لیکن اس نے ہندی معاشرے کے اس رواج کو قبول کرنے کے بجائے اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک مثال بن گئی۔

بھارتی ریاست مغربی بنگال کے ایک چھوٹے سے گائوں سے تعلق رکھنے والی بٹیکا کے والدین نے دو سال قبل ایک نوجوان سے اس کی شادی طے کردی تھی۔

بٹیکا کے احتجاج کے باوجود جب اس کے والدین نے اس کی شادی منسوخ کرنے سے انکار کردیا تو اس نے 'چائلڈ لائن انڈیا فائونڈیشن' نامی غیر سرکاری تنظیم کے مرشد آباد میں واقع دفترسے رابطہ کیا۔

یہ تنظیم مشکل میں گرفتار بچوں کو رہنمائی اور ان کی مدد کے لیے 24 گھنٹے 'ہیلپ لائن' فراہم کرتی ہے۔

'چائلڈ لائن' سے منسلک رضاکار دبیکا گھوشل نے اپنی ٹیم کے ہمراہ بعد ازاں 14 سالہ بٹیکا کی شادی رکوادی۔ تنظیم کے رضاکار مقامی پولیس کے ساتھ مل کر ایسے والدین کے خلاف فوجداری مقدمات کا اندراج بھی یقینی بناتے ہیں جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے بچوں کی کم عمری میں شادی کرنا چاہ رہے ہوں۔

بٹیکا کو اس پیش آمدہ شادی سے نجات دلانے کے بعد تنظیم کے رضاکاروں نے اس بات کو یقینی بنایا کے وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے اور ان کی کوششوں کے طفیل بٹیکا ایسا کرنے میں کامیاب رہی۔

بھارت میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا ایک بڑا سبب انہیں معاشی بوجھ سمجھنا ہے۔ والدین جہیز سے بچنے کے لیے بھی اپنی بچیوں کی کم عمری میں رخصتی کو ترجیح دیتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ بھی بھارت میں کم عمری میں شادی کے نقصانات کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ عالمی ادارے اس ضمن میں بچپن میں ہونے والی شادیوں کی ناکامی کی بلند شرح اور کم عمر دلہنوں پر جسمانی اور جنسی تشدد کے امکانات کو اجاگر کرتے ہیں۔

لیکن ان شادیوں کے نقصانات ان بیان کردہ معاملات سے کہیں زیادہ ہیں۔ عالمی ادارے 'یونیسیف' کے مطابق 15 سے 19 سال کی لڑکیوں کے زچگی سے متعلق پیچیدگیوں کا شکار ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے جب کہ کم عمر مائوں کے نوزائیدہ بچوں میں اموات کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے۔

لیکن اب غیر سرکاری تنظیموں اور اداروں کی کوششوں کے طفیل بٹیکا اور اس جیسی کئی بچیاں بھارتی معاشرے میں صدیوں سے روا اس ظلم سے نہ صرف خود بچ نکلنے میں کامیاب ہوئی ہیں بلکہ دیگر بچوں اور بچیوں کو بھی ایک نئی راہ دکھا رہی ہیں۔