بھارت کی حکومت نے سپریم کورٹ سے ایک درخواست کے ذریعے ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کے مقام سے متصل غیر متنازع اراضی کو رام مندر ٹرسٹ کے حوالے کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔
یہ ٹرسٹ ہندو قوم پرست تنظیم وشوا ہندو پریشد نے تشکیل دیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ قدم راشٹریہ سیوک سنگھ، وشو ہندو پریشد اور دیگر ہندو تنظیموں کے دباؤ کے تحت اٹھایا ہے تاکہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں ہندو اکثریت کے ووٹ سمیٹ سکے۔
واضح رہے کہ کانگریس کی حکومت نے 1992ء میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد 1993ء میں بابری مسجد کی اراضی سمیت اطراف کی 70 ایکڑ سے زائد زمین کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے اس زمین سے متعلق 'اسٹیٹس کو' یعنی موجودہ صورتِ حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔
اب بھارت کی حکومت یہ چاہتی ہے کہ عدالت اپنا یہ حکم اٹھا لے تاکہ وہ مذکورہ اراضی رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندو فریق کو سونپ سکے۔
حکومت کے اس قدم کو اپریل اور مئی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے عین قبل رام مندر کے حامی ہندوؤں کو خوش کرنے کی ایک سیاسی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ ایودھیا کی متنازع اراضی کے حقِ ملکیت سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر مقدمے کی سماعت میں بوجوہ تاخیر ہو رہی ہے۔
اس معاملے پر منگل، 29 جنوری کو سماعت ہونی تھی۔ لیکن پانچ رکنی بینچ کے ایک جج جسٹس ایس اے بوبڈے نے طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے معذوری ظاہر کی جس کی وجہ سے سماعت پھر ملتوی ہو گئی۔
اس سے قبل جب سماعت شروع ہوئی تھی تو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکیل راجیو دھون نے اعتراض اٹھایا تھا کہ بینچ میں شامل ایک جج جسٹس یو یو للت اس سے قبل بابری مسجد کے انہدام کے معاملے کی سماعت کے دوران ایک ملزم اور اتر پردیش کے سابق وزیرِ اعلیٰ کلیان سنگھ کی جانب سے پیش ہوئے تھے۔
اس اعتراض پر جسٹس یو یو للت نے خود کو اس بینچ سے الگ کر لیا تھا جس پر چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے نیا بینچ تشکیل دیا تھا۔
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے عوام سے رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا اور اس لیے وہ چاہتی ہے کہ اس معاملے کا تصفیہ جلد از جلد ہو تاکہ مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہو سکے۔
ایک روز قبل وزیرِ قانون روی شنکر پرساد نے کہا تھا کہ عدالت کو جلد از جلد اس معاملے کا فیصلہ سنانا چاہیے۔
وزیرِ قانون کا کہنا تھا کہ ایودھیا کیس 70 برسوں سے عدالت میں معلق ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے 2010ء میں رام مندر کے حق میں فیصلہ سنایا تھا مگر اب یہ پھر سپریم کورٹ میں آ کر اٹک گیا ہے۔
خیال رہے کہ 2010ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ ہندو فریق یعنی نرموہی اکھاڑہ، دوسرا حصہ رام للا براجمان اور تیسرا حصہ سنی سینٹرل وقف بورڈ کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن اس فیصلے کو تمام فریقوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔
حکومت نے سپریم کورٹ میں جو عرض داشت داخل کی ہے اس میں اس کا کہنا ہے کہ مذکورہ زمین 1993ء میں تحویل میں لی گئی تھی۔ اب اس کو 25 سال ہو گئے ہیں۔ تحویل شدہ غیر متنازع زمین کو اس کے اصل مالک یعنی رام مندر ٹرسٹ کو سونپ دیا جانا چاہیے۔
حکومت نے کہا ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ عدالت نے اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا جو حکم دیا تھا اسے غیر متنازع اراضی کے لیے اٹھا لیا جائے۔
اس سے قبل وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ اس معاملے میں عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جائے گا۔ فیصلہ آنے کے بعد ہی رام مندر کی تعمیر کے سلسلے میں آرڈیننس لانے وغیرہ پر غور کیا جائے گا اور جو بھی ہوگا آئین کے دائرے میں ہو گا۔
لیکن اس کے بعد بھی ہندو فریقوں اور سادھو سنتوں کی جانب سے حکومت پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ رام مندر کی تعمیر کے لیے قانون سازی کرے۔
آر ایس ایس کے ایک سینئر رہنما بھیا جی جوشی نے گزشتہ دنوں حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2025ء میں رام مندر کی تعمیر ہو گی اور اس کے بعد ملک ترقی کرے گا۔
انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کانگریس پارٹی رام مندر کی تعمیر کا وعدہ اپنے انتخابی منشور میں شامل کرے تو اس کو ووٹ دیا جائے گا۔ لیکن بعد میں وہ اپنے اس بیان سے مکر گئے تھے۔