'بھارتی فوجیوں کی مارپیٹ نے عادل کو انتہاپسند بنایا'

فوجی قافلے پر خودکش حملہ کرنے والے عادل احمد ڈار کی والد، 15 فروری 2019

سری نگر کے قریب 14 فروری کو ایک فوجی قافلے پر خودکش حملے میں 49 فوجی ہلاک ہوئے۔ کشمیری عسکری گروپ جیش محمد نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ ان کے ایک کمانڈو عادل احمد ڈار نے کیا تھا۔

عادل احمد ڈار کون ہے

خودکش حملہ آور 20 سالہ عادل احمد ڈار بھارتی کشمیر کے ایک گاؤں لیتہ پورہ کا رہنے والا تھا۔ اس کا والد حسن ڈار کاشت کاری کر کے گزر بسر کرتا ہے۔ اس نے خبررساں ادارے رائیٹرز سے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہ انہیں بھی اتنا ہی دکھ ہے جتنا کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے اہل کاروں کے خاندانوں کو ہے۔

غلام حسن نے بتایا کہ ان کا بیٹا سیکورٹی اہل کاروں کے ہاتھوں تشدد کانشانہ بننے کے بعد انتہاپسندی کی جانب مائل ہوا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ 2016 کا واقعہ ہے جب عادل سکول میں پڑھتا تھا۔ ایک روز وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اسکول سے واپس آ رہا تھا کہ سیکورٹی اہل کاروں نے ایک سٹرک پر انہیں روکا اور مارا پیٹا۔ سیکورٹی اہل کاروں کا الزام تھا کہ ان لڑکوں نے ان پر پتھر پھینکے تھے۔ اس مار پیٹ کا عادل پر اتنا اثر ہوا کہ عسکریت پسندی کی جانب مائل ہو گیا۔

عسکری گروپ جیش محمد کی طرف سے خودکش حملے کے بعد جاری ہونے والی ایک ویڈیو میں عادل نے عسکری گروپ کا لباس پہنا ہوا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک خودکار رائفل ہے اور وہ حملے سے متعلق اپنے منصوبے کی تفصیلات بتا رہا ہے۔

عادل کی ماں فہمیدہ نے اپنے شوہر کے بیان کی تصدیق کی۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ سال پہلے جب عادل اپنے دوستوں کے ساتھ سکول سے واپس آ رہا تھا تو بھارتی فوجیوں نے انہیں روک کر مارا پیٹا تھا۔ اس واقعہ نے اسے بھارتی فوجیوں سے متنفر کر دیا تھا۔

دونوں میاں بیوی نے بتایا کہ انہیں یہ علم نہیں تھا کہ ان کے بیٹے نے فوجی قافلے پر حملے کا کوئی منصوبہ بنا رکھا ہے۔

فوجی قافلے پر خودکش حملہ آور عادل احمد ڈار کے والد غلام حسن ڈار، 15 فروری 2019

عادل کی ماں فہمیدہ کو وہ تاریخ اب تک یاد ہے جب انہوں نے اپنے بیٹے کو آخری بار دیکھا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ پچھلے سال 19 مارچ کا واقعہ ہے۔ عادل صبح سویرے حسب معمول کام پر کیا۔ وہ ایک جگہ مزوری کرتا تھا، لیکن اس شام وہ اپنے گھر واپس نہیں آیا۔

فہمیدہ نے بتایا کہ ہم تین مہینوں تک اسے ہر جگہ تلاش کرتے رہے، لیکن عادل کا کچھ پتا نہیں چلا، آخر تھک ہار کر ہم نے اس کی تلاش ترک کر دی۔ شاید وہ لاپتا ہو گیا تھا

رائیٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عادل کے والدین کے بیان کی فوری طور پر آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔ اور کوئی سرکاری عہدے دار اس پر اپنے ردعمل کئے لیے دستیاب نہیں تھا۔

ہلاکتوں کے ذمہ دار سیاست دان ہیں

حسن ڈار کہتے ہیں کہ اس کے بیٹے کی موت کے ذمہ دار سیاست دان ہیں۔

انہوں نے بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں جاری تنازع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاست دانوں کو یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔

حسن ڈار کا کہنا تھا کہ سیاست دان نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی جانب دھکیلنے کے ذمہ دار ہیں کیونکہ انہیں مسئلے کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔

ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں عام لوگوں کے بیٹے مر رہے ہیں، چاہے وہ بھارتی فوجی ہوں یا ہمارے بیٹے ہوں۔