کمسن آصفہ بانو سے جنسی زیادتی اور قتل پر بھارتی سپریم کورٹ کا نوٹس

سری نگر میں نوجوان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کے آنسو گیس کے گولوں کا جواب پھتراؤ کر کے دے رہے ہیں۔ 13 اپریل 2018

بھارتی سپریم کورٹ نے جموں کے بعض وکلاء کی طرف سے پولیس کوایک کم سن لڑکی کی آبرو ریزی اور قتل میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف پولیس کو ایک مقامی عدالت میں فرد جرم دائر کرنے سے روکنے کے واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اظہار وجوہ کا ؤ نوٹس جاری کردیا ہے اور از خود کیس کا جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع کٹھوعہ کے ایک گاؤں رسانہ کی آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو اس سال 17 جنوری کو اچانک لاپتا ہوگئی تھی۔ ایک ہفتے کے بعد اُس کی لاش گاؤں کے مضافات میں جھاڑیوں میں ملی تھی –

پوسٹ مارٹم رپورٹ اور پولیس کی تحقیقات کے مطابق آصفہ کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اُسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اُس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔

کم سن بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کے اس واقعے کو اگرچہ تین ماہ ہو رہے گزشتہ دو دن سے اس کے خلاف بھارت کے مختلف سیاسی اور سماجی حلقوں اور بالی وڈ کی کئی اہم شخصيات کی طرف سے شديد غم و غصے کا اظہار کیا رہا ہے جبکہ نئی دہِلی میں نریندر مودی کی حکومت میں شامل چند اہم وزراء نے اس واقعہ کو نا قابلِ قبول قرار دیتے ہوئے ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا یقین دلایا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے جس میں چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم خان ولکر ار جسٹس ڈی وائی چندراچُد شامل تھے جمعہ کوجموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کٹھوعہ بار ایسو سی ایشن کے نام اس معاملے پر ہڑتال پر جانے، آصفہ کے والدین کی طرف سے مقرر کردہ وکیل کو عدالت میں ان کی نمائندگی کرنے سے روکنے اور کٹھوعہ کی عدالت میں فردِ جرم دائر کرنے کے عمل میں رخنہ ڈالنے پر نوٹس جاری کردیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے 19 اپریل تک جواب طلب کیا ہے۔

عدالتی بینچ نے کہا کہ قانون اور اخلاقیات کے تحت فردِ جرم دائر کرنے سے روکنے اور کسی وکیل کو مظلوم کے کنبے کی نمائندگی کرنے سے باز رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔

بینچ نے مزید کہا کہ کسی بھی کیس سے منسلک ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا وکیل مقرر کرے اور اگر وکلاء اس اصول کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ انصاف فراہم کرنے کے نظام کے لئے تباہ کُن ہو گا۔

کئی وکلاء کی طرف سے آصفہ کے ساتھ پیش آنے واقعہ کے متعلق معلومات پیش کرنے کے بعد عدالتِ عظمٰی نے کیس کا از خود جائزہ لینے پر رضامندی ظاہر کردی۔

بھارتی کشمیر کی حکومت کے کونسل شعیب عالم نے بعض وکلاء کے اس مطالبے کی شديد مخالفت کی ہے کہ کیس کی تحقیقات ریاستی پولیس کی بجائے بھارت کے وفاقی تحقیقاتی ادارے سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) سے کرائی جائے کیونکہ مقامی لوگوں نے پولیس پر عدم بھروسے کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے معاملے کی پوری طرح سے تحقیقات کی ہے اور یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ فردِ جرم دائر کئے جانے کے بعد کیس کو سی بی آئی کو منتقل نہیں کیا جاسکتا۔

ادھر آصفہ کے والد سے جب نامہ نگاروں نے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے اور ان کی بیٹی کے ساتھ پیش آئے واقعے پر تین ماہ کی تاخیر کے بعد وسیع پیمانے پر غم و غصے کے اظہار کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے پہلے ہی یہ معاملہ اللہ کی عدالت میں پیش کردیا ہے۔

اس سے پہلے کی رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ واقعہ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں پولیس نے مندر کے نگراں سانجی رام، ان کے بیٹے وشال کمار اور ایک اسپیشل پولیس افسر دیپک کھجوریہ سمیت چھ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس کے ایک سب انسپکٹر اور ہیڈ کانسٹیبل کو بھی کیس سے متعلق ثبوت مٹانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ہے۔

مقامی پولیس کی کرائم برانچ نے جسے تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا، پیر کو رات کی تاریکی میں کٹھوعہ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کے گھر جا کر کیس کے سلسلے میں فردِ جرم دائر کی تھی ۔ کیونکہ مقامی ہندو وکلاء نے دن کے دوران عدالت کے باہر ہنگامہ کیا تھااور پولیس کو فردِ جرم دائر کرنے سے زبردستی روکا تھا۔

اس سے پہلے ملزموں کی حمایت میں اور انہیں رہا کرنے کے مطالبے کو منوانے کے لئے علاقے میں کئی جلسے کئے گئے اور جلوس نکالے گئے تھے۔ اس طرح کے ایک جلوس کے دوران شرکاء نے بھارت کا قومی پرچم لہرایا تھا جس پر بعض حلقوں نے شديد رد عمل ظاہر کیا تھا۔ وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ملزموں کی حمایت کرنے کی سرگرمی کو شرمناک اور مظاہروں کے دوران بھارت کا قومی پرچم لہرانے کو توہین آمیز قرار دیا تھا۔

ایک اور تازہ پیش رفت میں ریاست کی مخلوط حکومت میں شامل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے دو وزیروں چوہدری لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا نے، جن پر ملزموں کی کُھلے عام حمایت کرنے کا الزام ہے، استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نئی دہلی میں پارٹی ہائی کمان کی ہدایت پر اپنے استعفے بی جے پی کے ریاستی یونٹ کے سربراہ ست پال شرما کو پیش کئے ہیں لیکن شرما نے انہیں تاحال وزیرِ اعلیٰ کو پیش نہیں کیا ہے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق شرما نے سیاسی اور سماجی حلقوں کی طرف سے بڑھتی ہوئی تنقید اور دباؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کرنے لے لئے کل سنیچر کو جموں بی جے پی کے وزرا سمیت ممبرانِ قانون سازیہ اور سرکردہ لیڈروں کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔