سہیل انجم
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں تعینات میجر آدتیہ کے والد نے سپریم کورٹ میں ایک عرضداشت داخل کرکے شوپیان فائرنگ کے سلسلے میں میجر اور ان کے تین ساتھیوں کے خلاف درج قتل کا مقدمہ ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔
جنوری کی 27 تاریخ کو بھارتی فوج نے جنوبی ضلع شوپیان میں پتھراؤ کرنے والے ایک ہجوم پر گولی چلا دی تھی جس کے نتیجے میں تین نوجوان ہلاک اور 9 زخمی ہوئے تھے۔
پولیس نے اس واقعہ میں ملوث میجر آدتیہ اور ان کے تین ساتھیوں کے خلاف قتل، اقدام قتل اور انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کا مقدمہ درج کر لیا تھا ۔
میجر آدتیہ کے والد کرم ویر سنگھ نے جو کہ خود ایک فوجی ہیں اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز ہیں، اپنی پٹیشن میں پولیس کیس کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی فوجی افسروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ چونکہ کشمیر میں مسلح افواج کو خصوصی اختیار دینے والا قانون AFSPA نافذ ہے اس لیے پولیس کسی بھی فوجی افسر کے خلاف کیس درج نہیں کر سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرا بیٹا ان فوجیوں کے تحفظ کی ڈیوٹی انجام دے رہا تھا جن پر پتھراؤ کیا جا رہا تھا اور جن کی جانوں کو خطرہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی کشمیر میں انتہائی معاندانہ ماحول کی وجہ سے انہیں براہ راست سپریم کورٹ میں آنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ انہوں نے مرکزی حکومت سے بھی اپیل کی کہ وہ کشمیر میں تعینات فوجیوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔
وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے فائرنگ کے واقعہ کی مجسٹریٹی جانچ کا حکم دیا ہے اور بیس روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ میجر آدتیہ انتظامی قافلے کی قیادت کر رہے تھے اور فائرنگ کے مقام سے دور تھے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جوانوں نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی تھی۔
بی جے پی نے ایف آئی آر درج کیے جانے پر سخت اعتراض کیا ہے۔ رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے دھمکی دی ہے کہ اگر کیس واپس نہیں لیا گیاتو وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو برطرف کر دیا جائے گا۔
وزیر اعلی کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی وزیر دفاع نرملا سیتا رمن سے مشورے کے بعد کی گئی ہے۔