جمعرات کو سری نگر کے قریب واقع لیتہ پورہ علاقے میں کالعدم جیشِ محمد سے وابستہ ایک عسکریت پسند کے خود کُش حملے میں ہلاک ہونے والے پولیس اہل کاروں کی تعداد بڑھ کر 49 ہو گئی ہے۔ عہدیداروں نے بتایا کہ سری نگر کے ایک فوجی اسپتال میں زیرِ علاج نو مزید اہل کار زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔
خود کش حملہ بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے ایک کانوائے پر کیا گیا تھا جس سے کانوائے میں شامل ایک بس مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔
عہدیداروں کے مطابق ایک عسکریت پسند نے، بعد میں جس کی شناخت عادل احمد ڈار کے طور پر کی گئی، اپنی کار کو جس میں کم سے کم ایک سو کلو گرام بارودی مواد لدا ہوا تھا، سی آر پی ایف کے کانوائے میں شامل اس بس سے ٹکرادیا تھا جس سے ایک زور دار دھماکہ ہوا اور نہ صر ف یہ بس مکمل طور پر تباہ ہو گئی بلکہ کانوائے میں شامل کئی اور گاڑیوں اور شاہراہ کے دونوں طرف واقع دکانوں اور دوسری عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔
اس خود کُش حملے میں واحد حملہ آور بھی مارا گیا تھا۔
یہ کانوائے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں سے سری نگر آ رہا تھا اور عہدیداروں کے مطابق اس میں شامل گاڑیوں میں سی آر پی کے وہ اہل کار اور افسران سفر کر رہے تھے جو بھارت کے مختلف حصوں میں اپنے اپنے آبائی گھروں میں چھٹیاں گزارنے کے بعد وادئ کشمیر میں اپنی ڈیوٹیوں پر لوٹ رہے تھے۔
جیش محمد نے ذمہ داری قبول کی
حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکری تنظیم جیشِ محمد نے قبول کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ یہ ایک 'فدائین حملہ" تھا جسے تنظیم کے ایک مقامی کشمیری عادل احمد ڈار عرف وقاس کمانڈو نے انجام دیا۔
جیش محمد کو بھارتی حکومت ریاست اور ریاست کے باہر ماضی میں کئے گئے متعدد حملوں کا ذمہ دار ٹھراتی ہے جن میں 13 دسمبر 2001 کو نئی دہلی میں پارلیمنٹ ہاؤس پر کیا گیا حملہ بھی شامل ہے۔
اقوامِ متحدہ، امریکہ اور بھارت نے جیش محمد کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
جیشِ محمد نے کہا ہے کہ حملہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں بھارتی فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں کی طرف سے مقامی نوجوانوں کو قتل کرنے اور لوگوں کے ساتھ کی جاری ہولناک زیادتیوں کا بدلہ لینے کے لئے کیا گیا ہے۔
پاکستان پر حملے کی پشت پناہی کا الزام
بھارت نے حملے کے لئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا بدلہ لیا جائے گا۔
پاکستان نے واقعے میں ملوث ہونے کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے اور کہا ہے جمعرات کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں کیا گیا خود کُش حملہ اس کے لئے گہری تشویش کا معاملہ ہے۔ پاکستان نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ وادئ کشمیر میں تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کی مذمت کرتا آ رہا ہے۔
خودکش حملے میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے اور حملے سے پیدا شدہ حفاظتی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لئے بھارت کے وزیرِ داخلہ راج ناتھ سنگھ سری نگر پہنچ گئے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق وادی میں اپنے مختصر قیام کے دوران وزیرِ داخلہ حفاظتی دستوں کے مقامی کمانڈروں اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کے ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں۔ اجلاس میں خودکش حملے کے پس منظر میں ریاست بالخصوص وادئ کشمیر کی صورتِ حال کے مختلف پہلوؤں پر غور و خوص کیا جا رہا ہے۔
خودکش حملے کی تحقیقات کے لیے بھارتی نیشنل سیکورٹی گارڈز (این ایس جی) کے ماہرین اور قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این اے آئی) کے تفتیش کار بھی سرینگر پہنچ گئے ہیں۔
جموں میں پرتشدد مظاہروں کے بعد کرفیو
خودکش حملے میں ہلاکتوں کے خلاف جمعے کو جموں اور خطے کے دوسرے ہندو اکثریتی شہروں اور علاقوں میں احتجاجی ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال کے لئے اپیل جموں کے تاجروں کی ایک انجمن نے کی تھی، جس کی تائید مختلف سیاسی تنظیموں اور جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کی۔
ہڑتال کے دوران جموں شہر کے مختلف مقامات پر ہونے والے مظاہروں میں پاکستان کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ مظاہرین نے پاکستان اور بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں اور ان کے حامیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
ہڑتال کے دوران پرتشدد مظاہرین نے کئی نجی گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقے گجر نگر میں توڑ پھوڑ کی۔
عینی شاہدین کے مطابق موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوانوں نے، جن کے ہاتھوں میں بھارت کا قومی پرچم تھا، جموں کے پریم نگر علاقے میں نجی گاڑیوں اور مکانوں پر پتھراؤ کیا۔ اس سے پہلے مظاہرین کے ایک گروپ نے گجر نگر سے گزرتے ہوئے سڑکوں پر پارک کاروں اور دوسری گاڑیوں کو بلا اشتعال آگ لگا دی۔ تشدد اور پتھراؤ کے ان واقعات میں تقریباً ایک درجن افراد زخمی ہوئے۔
تشدد اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیشِ ںظر حکام نے پہلے گجر نگر اور پھر پورے جموں شہر میں غیر معینہ مدت کے لئے کرفیو نافذ کر دیا۔
جموں کے ضلع کمشنر رمیش کمار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کرفیو امن و امان کو برقرار رکھنے اور لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے نافذ کیا گیا ہے۔
ایک اعلیٰ عہدیدار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جموں میں کرفیو فرقہ وارانہ ردِ عمل کے خدشے کے پیش نظر نافذ کیا گیا ہے۔
ریاست کے سرمائی صدر مقام اور جموں خطے کے چند دوسرے ہندو اکثریتی علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروسز بھی تا حکمِ ثانی بند کر دی گئی ہیں۔
سرحدی ضلع پونچھ سے موصولہ ایک اطلاع میں کہا گیا ہے کہ وہاں کے اعلیٰ پیر بازار میں بھی ایک مشتعل ہجوم نے نجی موٹر گاڑیوں میں توڑ پھوڑ اور مقامی مسلمانوں کی دکانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ لیکن پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے مشتعل افراد کو آنسو گیس کے استعمال سے منتشر کر دیا۔
علیحدگی پسند کشمیری رہنماؤں کا ردعل
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے لیتہ پورہ کے خودکش حملے پر اپنے پہلے ردِ عمل میں کہا ہے کہ کشمیری عوام اور ان کی قیادت ریاست کی سرزمین پر ہونے والی ہر ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتی ہے۔ اتحاد کے ایک بیان میں کہا گیا ہے " (بھارتی زیرِ انتظام) کشمیر میں ہر روز جنازے اُٹھ رہے ہیں لہٰذا ہم اس واقعے میں مارے گئے افراد کے لواحقین کے دکھ اور درد اور اپنوں کو کھو دینے کے احساس کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں"۔
امریکہ کی مذمت
امریکہ نے جمعرات کے روز بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بھارتی مرکزی پولیس کے ایک قافلے پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی ’’شدید ترین‘‘ الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ایک اخباری بیان میں محکمہٴ خارجہ کے معاون ترجمان، رابرٹ پلاڈینو نے کہا ہے کہ ’’ہم دل کی گہرائی سے ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہیں جب کہ زخمیوں کی جلد صحت یابی کے خواہاں ہیں‘‘۔
اخباری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہر قسم کی دہشت گردی کے انسداد کے حوالے سے، امریکہ ہمیشہ بھارتی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے پر پُرعزم ہے۔ جیش محمد نے اس قابل نفرت عمل کی ذمہ داری قبول کی ہے‘‘۔
ترجمان نے کہا ہے کہ ’’ہم تمام ملکوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق، دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانہ اور مدد دینے سے انکار کریں‘‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکہ جموں و کشمیر کی بھارتی ریاست میں ’انڈین سینٹرل رزرو پولیس فورس‘ کے قافلے پر آج ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید ترین مذمت کرتا ہے‘‘۔