بھارت کے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور اُن کی حکومت کشمیر اور کشمیریوں سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور "ان کی تصویر اور تقدیر بدلنا چاہتے ہیں"۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’’نئی دہلی کا زیرِ انتظام کشمیر گزشتہ تین دہائیوں سے جس پُرآشوب دور سے گزر رہا ہے۔ اسے اس سے باہر نکالنے اور ریاست میں دائمی امن قائم کرنے کے لئے وفاقی حکومت تمام اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے‘‘۔
سرینگر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا ہے کہ"بات چیت سب سے ہو سکتی ہے۔ بات چیت کے لئے عقل و شعور والا ہونا ضروری ہے نہ کہ ہم خیال۔ ہم تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات کرنا چاہتے ہیں اور اسی مقصد کے لئے ہم نے گزشتہ برس کشمیر پر ایک خصوصی نمائندے کا تقرر عمل میں لایا تھا۔"
بھارتی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ حکومت کے خصوصی نمائندے دنیشور شرما نے جو بھارت کے قومی سراغرساں ادارے، انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں، ’’اب تک کشمیر کا 11 مرتبہ دورہ کیا ہے‘‘۔
بقول اُن کے، "وہ یہاں سیر سپاٹے کے لئے نہیں بلکہ لوگوں سے بات کرنے کے لئے آتے ہیں۔ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے ملنا چاہتے ہیں تاکہ کشمیر کے مسائل کا پُرامن اور دائمی حل تلاش کیا جا سکے"۔
راجناتھ سنگھ شورش زدہ ریاست کے دو روزہ دورے پر ہیں۔ انہوں نے جمعرات کو سرینگر میں گورنر نریندر ناتھ ووہرا، وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی اور بھارتی فوج کی شمالی کمان کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل رنبیر سنگھ کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کیں۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں کے دوران نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی مجموعی اندرونی صورت حال پر غور و خوض کیا گیا۔ نیز متنازعہ ریاست کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائین اور 198 کلو میٹر لمبی جموں۔سیالکوٹ سرحد جو بھارت میں انٹرنیشنل باڈر اور پاکستان میں ورکنگ بوانڈری کہلاتی ہے پر پائی جانے والی صورتِ حال پر بھی تبادلہ خیالات کیا گیا۔
بین الاقوامی سرحد یا ورکنگ بوانڈری پر تعینات دونوں ملکوں کے سرحدی حفاظتی دستوں کے درمیان حال ہیں میں ایک مرتبہ پھر شدید جھڑپیں ہوئی تھیں جن کے نتیجے میں متعدد افراد جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
جس وقت یہ سطور لکھی جارہی تھیں راجناتھ سنگھ اعلیٰ فوجی کمانڈروں، پولیس اور نیم فوجی دستوں، سراغرساں اداروں اور سول انتظامیہ کے افسران کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے جس دوران بھارتی حکومت کی طرف سے ریاست میں ماہِ رمضان کے دوراں مشروط جنگبندی اور عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشنز کو معطل رکھنے کے فیصلے کے ریاست کی عمومی حفاظتی صورتِ حال پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا جارہا تھا۔ وہ سرمائی صدر مقام جموں میں بھی اسی طرح کی اجلاس منعقد کریں گے اور پھر باز گیری یا فیڈ باک کی بنیاد پر نئی دہلی میں مشروط جنگبندی کی مدت بڑھانے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
پریس کانفرنس کے دوران راجناتھ سنگھ نے کشمیری علحیدگی پسند قیادت پر کشمیری نوجوانوں کو سنگباری پر اکسانے کا الزام عائید کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ خود اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں۔ لیکن عام بچوں کے ہاتھوں میں پتھر تھما کر انہیں تشدد کے راستے پر گامزن کرا دیتے ہیں اور اس طرح ان کا مستقبل تاریک بنا دیتے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا: "یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ کہاں کی انسانیت ہے؟"
انہوں نے کہا کہ "میں ان سے دل کی گہرائی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ جموں و کشمیر کے سبھی بچوں کو اپنے بچے سمجھیں۔ انہیں جو بھی سیاسی کھیل کھیلنا ہے کھیلیں لیکن ان بچوں کے مستقبل کو داؤ پر نہ لگائیں۔ یہ بچے جموں و کشمیر ہی کے نہیں پورے بھارت کے بچے ہیں۔ پورے بھارت کے لوگوں کا کشمیری بچوں کے ساتھ جذباتی رشتہ ہے۔ ان کی قابلیت، اہلیت اور تخیل کی ہر طرف دھوم مچی ہوئی ہے اور ہر بھارتی شہری ان کی پزیرائی کر رہا ہے۔"
بھارتی وزیرِ داخلہ نے مزید کہا کہ سنگباری میں حصہ لینے والے کشمیری نوجوانوں کے مستقبل کو بچانے کے لئے حکومت نے نومبر 2017 میں پہلی بار اس کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف دائر کئے گئے مقدمات کو واپس لینے کا فیصلہ کیا اور اب تک ایسے دس ہزار کیس واپس لئے جاچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ طاقتیں نہیں چاہتیں کہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں امن بحال ہو اور ریاست ترقی کرے۔