|
سرینگر — بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے دس سال بعد جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم بعض سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسمبلی اور حکومت کے پانچ اگست 2019 سے پہلے کے اختیارات بحال کیے جائیں۔
بھارت کے الیکشن کمیشن نے جمعے کو ریاست ہریانہ اور وفاق کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر میں اسمبلی اتنخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا۔ جموں و کشمیر میں انتخابات تین مراحل میں ہوں گے۔ پہلا مرحلہ 18 ستمبر جب کہ آخری مرحلہ یکم اکتوبر کو ہو گا۔
اس سے قبل بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے آخری انتخابات 2014 میں ہوئے تھے۔ جون 2018 میں علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت کے خاتمے کے بعد ریاست کے گورنر نے اسمبلی کو تحلیل کر دیا تھا اور اسمبلی چھ سال کی مقررہ مدت پوری نہیں کر پائی تھی۔
جموں و کشمیر کی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے بھارتی پارلیمان کے رکن اور سابق وزیر آغا روح اللہ مہدی کہتے ہیں کہ "اچھا ہے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کرانے کا اعلان کردیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حکومتِ ہند کو اُن غلطیوں کا ازالہ کرنے کا آغاز بھی کرنا چاہیے جن کا ارتکاب اس نے گزشتہ چھ سال میں بالخصوص اگست 2019 کے بعد کیا ہے۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومتِ ہند کو ہماری آئینی حیثیت بحال کرکے جموں و کشمیر اسمبلی کے قانون سازی کے تمام اختیارات کو واپس لوٹانا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ بھارت کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو ریاست کی آئینی نیم خود مختاری ختم کردی تھی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے براہِ راست وفاق کے کنٹرول والا علاقہ بنا دیا تھا۔ یہ علاقے یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر اور یونین ٹریٹری آف لداخ کہلاتے ہیں۔
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران وفاقی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے کئی قوانین میں ترمیم کی ہے اور متعدد ایسے نئے قوانین متعارف کرائے ہیں جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے اختیارات میں مزید کمی آگئی ہے۔
جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے اعلان کیا ہے کہ جب تک جموں و کشمیر وفاق کا زیرِ انتطام علاقہ رہے گا وہ اسمبلی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔
عمر عبد اللہ نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ "میں ایسا وزیرِ اعلیٰ نہیں بننا چاہتا جسے اپنے چپڑاسی کا تقرر کرنے سے پہلے لیفٹننٹ گورنر کی اجازت لینا ہو۔"
جمعے کو جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہوا تو مرکز کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سوا قومی دھارے میں شامل تمام سیاسی جماعتوں نے یک زبان ہو کر جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ دہرایا۔
آغا روح اللہ نے کہا کہ "جموں و کشمیر نے گزشتہ چھ سال کے دوران بد دیانتی پر مبنی غلط حکمرانی اور بد نظمی دیکھی ہے۔ پانچ اگست 2019 کو جموں و کشمیر کو دو لخت کرنے کے بعد یونین ٹریٹری آف جموں و کشمیر کا نظام چلانے کے لیے افسر شاہی اور پولیس حکام کو باہر سے لا کر ہم پر مسلط کیا گیا۔"
ان کے بقول "اسمبلی انتخابات لوگوں کو اپنے نمائندے چننے کا موقع فراہم کریں گے اور نئی منتخب حکومت عوام کے سامنے جواب دہ ہوگی۔"
اپوزیشن جماعتوں کے نزدیک جموں کشمیر کی نیم مختاری ختم کرنے اور دیگر اقدامات کی وجہ سے اسمبلی انتخابات میں تاخیر کی جاری تھی کیوں کہ بی جے پی کو انتخابی میدان میں شکست کا خدشہ تھا اور اسی لیے وہ الیکشن سے گریز کر رہی تھی۔ البتہ بی جے پی اس تاثر کو مسترد کرتی ہے۔
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سرینگر کے اپنے حالیہ دورے کے دوران لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ علاقے میں اسمبلی انتخابات جلد کرائے جائیں گے۔
الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق جموں و کشمیر اسمبلی کی 90 نشستوں میں سے 24 کے لیے 18ستمبر، 26 نشستوں کے لیے 25 ستمبر جب کہ باقی ماندہ چالیس نشستوں کے لیے پولنگ کے آخری مرحلے میں یکم اکتوبر کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ووٹوں کی گنتی چار اکتوبر کو ہوگی۔
جموں و کشمیر اسمبلی کی نشستوں کی مجموعی تعداد 119 ہے۔ ان میں سے پانچ کو نامزدگی کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے جب کہ 24 نشستیں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیے محفوظ رکھی گئی ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کیا جانا چاہیے تاکہ قانون سازی کے اختیارات مکمل طور پر ریاستی اسمبلی کو لوٹائے جاسکیں۔
اس وقت جموں و کشمیر کے لیے قوانین بھارتی پارلیمان میں بنائے یا ترمیم کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر کے لیے سالانہ بجٹ نئی دہلی میں پارلیمنٹ میں پاس ہوتا ہے اور دیگر اہم انتظامی فیصلے بھی یا تو وفاقی حکومت کرتی ہے یا حکومت کا مقرر کردہ لیفٹننٹ گورنر اس کا مجاز ہوتا ہے۔
ڈاکٹر فاروق نے کہا "انتخابات کرانے کے اعلان کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن اسٹیٹ ہوڈ لوٹانا زیادہ اہم ہے۔ یہ مطالبہ صرف نیشنل کانفرنس کا نہیں، سبھی سیاسی جاعتیں ایسا چاہتی ہیں اور حکومتِ ہند نے بھی ہم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اسٹیٹ ہوڈ کو لوٹایا جائے گا۔"
کانگریس پارٹی کے ایک سینئر رہنما غلام احمد میر نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ کی بالادستی برقرار رہی ہے اور وہ اس پر خوش ہیں۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ وہ 30 ستمبر 2024 سے پہلے جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرائے جب کہ بھارتی حکومت سے کہا تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت یا اسٹیٹ ہوڈ کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے بحال کرے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بی جے پی نے بھی جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات کرانے کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔
بی جے پی جموں و کشمیر یونٹ کے سربراہ رویندر رینہ نے کہا کہ "ہم بڑی بے تابی کے ساتھ اس دن کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم انتخابات لڑنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔ یہ انتخابات جمہوریت کی جڑوں کو اور زیادہ مضبوط بنائیں گے اور جموں و کشمیر میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے دور کا نقطہ آغار ہوں گے۔"
تجزیہ کار ڈاکٹر ارون کمار کہتے ہیں کہ سیاست دانوں کے دعوے اور جوابی دعوے، الزامات اور جوابی الزامات اپنی جگہ۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کرانے میں غیر ضروری تاخیر کی گئی۔ یہ انتخابات بہت پہلے کرانے چاہیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب الیکشن کمیشن آف انڈیا کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ انتخابات منصفانہ طور پر پایہ تکمیل تک پہنچیں جو بھارت کی امیج اور اس کے جمہوری نظام کی بقا کے لیے ضروری ہے۔
ڈاکٹر ارون کمار کے مطابق پانچ اگست 2019 کو اور اس کے بعد بھارتی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات نے جموں و کشمیر اور لداخ کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو ٹھیس پہنچائی ہے اور جمہوری اقدار پر ان کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ"نریندر مودی نے بار ہا کہا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے دل جیتنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس کے لیے اس سے بہتر موقعہ کبھی نہیں ملے گا۔"