بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انسانی حقوق کی ایک تنظیم اور جبری لاپتا افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن نے دعویٰ کیا ہے کہ ریاست کے حراستی مراکز میں ایذا رسانی اپنے عروج پر ہے جسے اختلافِ رائے دبانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس) اور ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپئرڈ پرسنز (اے پی ڈی پی) نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی طرف سے جموں و کشمیر میں ایذا رسانی کو ایک پالیسی کے طور پر اختیار کیا گیا ہے کیونکہ ریاست کے تمام ادارے چاہے وہ قانون ساز ہوں، انتظامیہ، عدلیہ،یا فوج ہو، سب اس کا ایک حصہ ہیں۔
"ٹارچر: انڈین سٹیٹ انسٹرومنٹ آف کنٹرول ان انڈین ایڈمنسٹرڈ جموں اینڈ کشمیر‘ کے عنوان سے جاری کی گئی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور دوسرے سرکاری دستے اور ایجنسیاں ریاست میں جاری تحریکِ مزاحمت کو دبانے کے لیے ہزاروں شہریوں پر جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچانے کے تمام حربے استعمال کرتی رہی ہیں جن میں واٹر بورڈنگ، جسم کے نازک اعضا پر کرنٹ لگانا اور جنسی زیادتیاں شامل ہیں۔
ان تنظیموں کے مطابق رپورٹ تیار کرنے کے لیے جن 432 افراد کے معاملات کا جائزہ لیا گیا انہیں حراستی مراکز میں برہنہ کیا گیا تھا۔ اس قسم کے 190 معاملات سامنے آئے۔
لاٹھیوں، آہنی سلاخوں یا چمڑے کی بیلٹوں سے پیٹے جانے کے 326 معاملات نوٹس میں لائے گئے۔ رولر چلانے کے 169 معاملات، واٹر بورڈنگ کے 24 ، سر پانی میں ڈبونے کے 101، مختلف جسمانی اعضاء پر کرنٹ لگانے کے 231، پنکھوں سے الٹا لٹکانے کے 121، جسم کو گرم آلات سے داغے جانے کے 35، قید تنہائی کے 11، جبری طور پر جگائے رکھنے کے 21 اور آبرو ریزی اور مردوں کے ساتھ جنسی فعل کے 238 معاملات سامنے آئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایذا رسانی کا نشانہ بننے والے افراد میں 70 فیصد عام شہری تھے۔ ان واقعات میں حراست کے دوران تشدد کے نتیجے میں 11 فیصد اموات ہوئیں۔
رپورٹ کے مطابق ریاست میں اگرچہ تشدد اور ایذا رسانی کو 1947 ہی سے اختلافِ رائے دبانے کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے، تاہم 1990 کے بعد اس میں تیزی آئی جب بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں آزادی کے لیے مسلح تحریک کا آغاز ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں چونکہ مسلح افواج کو سزا کے خلاف قانونی، سیاسی اور اخلاقی چھوٹ حاصل ہے اس لیے انسانی حقوق کی پامالی کے ایک بھی واقعہ پر مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حراست کے دوران ہزاروں شہریوں پر کیے جانے والے تشدد کو دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے کیونکہ فوجی عقوبت خانوں میں وہ تمام حربے استعمال کیے جا رہے ہیں، جنہیں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر انسانی اور غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
ریاست میں بڑے پیمانے پر جاری ایذا رسانی اور دوران حراست ہلاکتوں کی ایک تازہ مثال دیتے ہوئے رپورٹ میں جنوبی ضلع پُلوامہ کے ایک اسکول کے پرنسپل رضوان پنڈت کے واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ 20 سالہ رضوان کو اس سال مارچ میں بھارتی پولیس کے اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) نے حراست میں لیا تھا۔ غیر قانونی حراست کے دوران جاری تشدد میں رضوان ہلاک ہو گیا، لیکن اس میں ملوث اہل کاروں کے خلاف کارروائی کی بجائے پولیس نے مقتول پر ایک اور مقدمہ درج کیا جس میں الزام لگایا کہ اُس نے پولیس کی حراست سے فرار ہونے کی کوشش کی، جس میں وہ مارا گیا۔
رپورٹ کے مطابق پوری پوری آبادیوں پر تشدد اور انہیں سزا دینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ مختلف علاقوں کو محاصرے میں لینے کے بعد وہاں سرچ آپریشنز شروع کر دیے جاتے ہیں جن کے دوران لوگوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور بعض واقعات میں انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں ٹارچر کے نتیجے میں مہلک بیماریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس کے مطابق تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کو نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایذا رسانی کے دوران 432 میں سے 49 افراد ہلاک ہو گئے جب کہ مزید 40 افراد زخموں کی تاب نہ لا کر دوران علاج چل بسے۔
رپورٹ کے مطابق اس طرح کی ہلاکتوں کی صحیح تعداد اور مریضوں کے حالات کا درست اندازہ لگانا دشوار اور بسا اوقات ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ ایذارسانی کا نشانہ بننے والے افراد پیچیدگیاں بڑھنے سے کئی برس کے بعد ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سال 15 فروری کو یہ اعلان کیا تھا کہ حکومت نے فوج کو ریاست میں صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے مکمل آزادی دے دی ہے۔ اس بیان سے تشدد کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ریاست میں جاری تشدد کے واقعات کی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن سے تحقیقات کرائی جائے۔ نیز رپورٹ میں بھارت پر بھی یہ زور دیا گیا ہے کہ وہ ایذا رسانی کے خلاف اقوام متحدہ کے ضابطے کی توثیق کرے اور ریاست میں ایذا رسانی کے استعمال پر پابندی لگائے۔
بھارت یا ریاستی حکومت نے اس رپورٹ پر تا حال کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ پولیس حکام اور ریاست میں تعینات بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ کمانڈر سے جب اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔
ماضی میں حکومت، فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس طرح کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالیوں یا طاقت کے بے جا استعمال کے مرتکب کئی اہل کاروں کو قانون کے مطابق سزا دی گئی۔ تاہم ایسے اہل کاروں کی تعداد بتائی گئی اور نہ ہی ان کے نام ظاہر کیے گئے۔