بھارتی حکام نے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ریاست کے طالب علموں کو پاکستانی کشمیر کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے سے روکے، کیونکہ بھارتی حکومت وہاں پڑھائے جانے والے کورسز کو تسلیم نہیں کرتی۔
بھارت کی یونیورسٹی گرانٹس کمشن (یو جی سی) نے واضح کیا ہے کہ، اس کے بقول، پاکستانی زیر انتظام کشمیر بھارت کا ایک لازمی حصہ ہے جس پر پاکستان ناجائز قابض ہے۔ وہاں کے تعلیمی اداروں کو نہ تو حکومتِ ہند نے قائم کیا ہے اور نہ ہی بھارت کے متعلقہ ادارے، جن میں یو جی سی، آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن اور میڈیکل کونسل آف انڈیا شامل ہیں، انہیں تسلیم نہیں کرتے۔
آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سیکرٹری اور جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کو خطوط کے ذریعے تاکید کی ہے کہ وہ ریاست کے طالب علموں کو پاکستانی کشمیر کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے سے باز رکھیں اور انہیں وہاں تعلیم حاصل کرنے کے منفی نتائج اور مضمرات سے خبردار کریں جن کا سامنا انہیں وہاں کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
کونسل نے یہ ہدایات اپنی اور بھارتی وزارتِ خارجہ کی طرف سے بھارتی کشمیر سے تعلق رکھنے والے 25 ایسے طلباء اور طالبات کے معاملوں پر غور کے بعد جاری کی ہیں جو اس وقت پاکستانی کشمیر میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اس سے پہلے ان طلبہ اور طالبات نے اپنی تعلیمی اسناد کی توثیق کے لیے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن سے رابطہ قائم کیا تھا۔
اسلام آباد سے تازہ اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ ان طالب علموں کو بھارتی حکام کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراض کی روشنی میں پاکستان کے مختلف کالجوں میں منتقل کرنے کے احکامات صادر کیے گئے ہیں تاکہ، مستقبل میں انہیں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے بعض ماہرینِ تعلیم اور سیاسی جماعتوں نے بھارتی حکومت اور متعلقہ اداروں کے اس موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ منقسم ریاست کے بھارتی علاقے کے طالب علموں کو تعلیم کے حصول کے لیے پاکستانی کشمیر جانے سے روکنا تعلیم کے شعبے کو سیاست سے جوڑنا ہے۔
مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مقامی لیڈر اور سابق رکنِ اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے کہا ہے کہ "ہمارے ملک کے بچے حصول تعلیم کے لیے امریکہ، چین اور پاکستان سمیت کئی ملکوں میں جاتے ہیں۔ اگر ان پر کوئی پابندی نہیں یا انہیں کہیں جانے سے منع نہیں کیا جاتا، تو کشمیری بچوں پر ایسی قدغن کیوں۔ اگرچہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کچھ اچھے نہیں ہیں، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ تعلیم کو سیاست سے جوڑنا چاہیے۔ کشمیری بچے تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان جائیں، بنگلہ دیش جائیں، نیپال جائیں یا پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر جائیں، اُن کو ایسا کرنے سے روکنا مناسب نہیں ہے۔"
پاکستانی کشمیر میں قائم میڈیکل کالجوں میں بھارتی کشمیر سے تعلق رکھنے والے طالب عملوں کے لیے 6 فیصد نشستیں مخصوص ہیں۔ ان کالجوں میں ہر سال مجموعی طور پر بھارتی کشمیر کے دو درجن سے زائد طالب علموں کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت بھارتی کشمیر کے اڑھائی سو سے زائد طلبہ اور طالبات جنوبی ایشیائی تعاون کی تنظیم سارک کے اسکالرشپ پروگرام کے تحت پاکستان کے مختلف پیشہ ور کالجوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔
علاوہ ازیں پاکستان کی حکومت بھارتی کشمیر، بالخصوص ریاست میں تین دہائیوں سے جاری تشدد سے متاثرہ خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو مختلف پروگراموں کے تحت ملک میں میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم کے لئے وضائف اور مالی معاونت کرتی ہے، جس پر بھارتی حکومت کو اعتراض ہے۔
لیکن، بعض ماہرین تعلیم کا اصرار ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی تلخیوں اور تعلقات کو تعلیم کے شعبے پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
بھارتی کشمیر کے نجی تعلیمی اداروں کی ایسوسی ایشن کے سربراہ جی این وار نے کہا ہے کہ " اگر کشمیری اسٹوڈنٹس کو حصول تعلیم کے لیے کہیں جانے سے روکا جاتا ہے تو یہ تعلیم کے بنیادی تصور کے خلاف ہے۔ تعلیم کو عالمگیر بنانے کے معاملے میں سیاست کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "بھارتی حکومت کے اس اقدام سے تعلیمی میدان میں ایک عجیب قسم کی کھلبلی مچ سکتی ہے"۔