پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں حالیہ شدید تناؤ کے اثرات مختلف سماجی اور ثقافتی حلقوں پر بھی پڑنا شروع ہوگئے ہیں اور بھارت میں بعض ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے پاکستانی فنکاروں کو ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دیے جانے کے بعد اب پاکستان میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ پاکستانی سینما گھروں میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کی جائے۔
لیکن سینما گھروں کے مالکان کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس سے قبل بھی تعلقات کشیدہ ہوتے رہے ہیں اور پابندی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔
منگل کو لاہور میں متعدد فلم سازوں اور اداکاروں کا ایک اجلاس بھی ہوا جس میں کہا گیا کہ بھارتی فلموں کی نمائش سے لاکھوں روپے کا سرمایہ بھارت منتقل ہوتا اور حکومت کو اس جانب توجہ دیتے ہوئے ان کی نمائش پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔
تاہم سینما گھروں کے مالکان کا موقف ہے کہ ان کے 70 فیصد سے زائد کاروبار کا دارومدار بھارتی اور ہالی ووڈ کی فلموں کی نمائش پر منحصر ہے اور اگر پابندی لگائی جاتی ہے تو اس شعبے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
لاہور کے ایک بڑے تفریحی پارک کے انتظامی سربراہ اور سینما گھر کے مالک زوریز لاشاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ فلموں پر پابندی سے اگر سینما گھر بند ہوتے ہیں تو اس سے وابستہ ہزاروں لوگوں کا روزگار خطرے میں پڑ جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پابندی کسی مسئلے کا حل نہیں اور انھیں توقع ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی جلد ختم ہو جائے گی۔
زوریز لاشاری کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی بھی تناؤ کی صورتحال میں شدید موقف اپناتے ہیں جو کہ مناسب نہیں ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت کے چند بڑے اداکاروں اور بعض سماجی حلقوں کی طرف سے یہ بیانات بھی سامنے آئے ہیں کہ اداکاروں کو ہراساں کرنا یا انھیں ملک چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالنا درست اقدام نہیں ہے۔