ستر سال بعد بھی یادیں بالکل تازہ ہیں

87 سالہ رضوان اللہ نے برِصغیر کی تقسیم کے وقت کے خوں چکاں واقعات بچشم خود دیکھے ہیں

بزرگ صحافی رضوان اللہ کا آبائی وطن اعظم گڑھ ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کلکتہ میں صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے گزارا۔ وہ کئی سال تک دہلی میں واقع امریکن سینٹر میں اردو ایڈیٹر بھی رہے۔ اب وہ مستقل طور پر دہلی میں مقیم ہیں۔ 87 سالہ رضوان اللہ نے برِصغیر کی تقسیم کے وقت کے خوں چکاں واقعات بچشم خود دیکھے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگوں سے بھی ان کی ملاقاتیں رہی ہیں جو پاکستان سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے۔ رضوان اللہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس پُر آشوب دور کی کچھ یادیں تازہ کیں۔

انھوں نے 15 اگست 1947 کے دن کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ”اس وقت میں ریلوے میں اپرینٹس ڈرائیور تھا۔ بنارس ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں میری پوسٹنگ تھی۔ 15 اگست کے موقع پر اسٹیشنوں پر سجاوٹ کے لیے جو سامان اسٹیشنوں پر پہنچانا تھا وہ اتفاق سے ہمارے انجن کے حوالے کیا گیا۔ ڈرائیور، ان کا اسٹاف اور میں، ہم تین لوگ انجن پر سامان لے کر بنارس اسٹیشن سے روانہ ہوئے۔ بنارس سے بھٹنی تک کے اسٹیشنوں پر سامان پہنچانا تھا۔ کئی کلومیٹر کا یہ فاصلہ شام تک طے ہوا۔ سامان کیا تھا؟ ڈوری میں ترنگا بندھا ہوا تھا اور گاندھی اور نہرو کے پوسٹر تھے۔ ہم صبح دس بجے بنارس اسٹیشن سے نکلے تھے۔ بھٹنی اسٹیشن پر پہنچنے اور واپس آنے میں رات ہو گئی اور پھر گھر جا کر تھک تھکا کر سو گئے۔ لہٰذا 15 اور 16 اگست کی درمیانی شب میں کی جانے والی پنڈت نہرو کی معرکہ آرا تقریر India's Tryst With Destiny ہم نہیں سن سکے۔ اگلے روز آل انڈیا ریڈیو پر وہ تقریر پھر آرہی تھی جس کا پہلا جملہ یہ تھا کہ ”اس وقت ہندوستان جاگ رہا ہے اور پوری دنیا سو رہی ہے“۔ مجھے اس جملے پر بڑی ہنسی آئی۔ کیونکہ جس وقت وہ تقریر کر رہے تھے اس وقت امریکہ میں دوپہر کا وقت تھا۔ یوروپ میں لوگ گرمیوں کی شام منا رہے تھے۔ مغربی ایشیا میں گرمی کم ہو گئی تھی اور لوگ عصر اور مغرب کے درمیان خوشیاں منا رہے تھے۔ مشرق بعید میں سورج طلوع ہونے والا تھا۔ ساری دنیا جاگ رہی تھی صرف ہندوستان سو رہا تھا۔ ہندوستان میں وہی ایک تہائی ہندوستانی جاگ رہے تھے جن کے پاس شام کو کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا اور جو بھوکے پیٹ تھے۔ یا تو وہ جاگ رہے تھے جو پارلیمنٹ میں موجود تھے“۔

رضوان اللہ 1946 کے واقعات کا ذکر تے ہیں اور بڑی تعداد میں مسلمانوں کے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے کا واقعہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”مسلم دانشوروں، سرمایہ داروں، سیاست دانوں کا بہت بڑا سیلاب تھا جو پاکستان کی طرف رواں دواں تھا۔ اس وقت یہاں قدم ٹکانا مشکل تھا۔ لوگ بہے چلے جا رہے تھے۔ سبھی سیاست کی وجہ سے نہیں جا رہے تھے۔ بہت سے لوگ فسادات کی وجہ سے بھی جا رہے تھے۔ یہ سوچ کر جا رہے تھے کہ اب یہاں جینا مشکل ہے۔ کچھ سیاسی اثرات کی وجہ سے جا رہے تھے اور کچھ دوسروں کے زیر اثر جا رہے تھے۔ اُس وقت محکمہ ریلوے میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد تھی۔ لیکن اس محکمے سے اتنے مسلمان چلے گئے کہ یہاں اسٹاف کی کمی ہو گئی۔ اُس وقت فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ان دنوں میں بنارس میں تھا بعد کلکتہ گیا۔ بنارس میں اس وقت بہت سکون تھا، وہاں کی فضا پر فسادات کا کوئی اثر نہیں تھا۔ البتہ ہوتا یہ تھا کہ پنجاب کے پناہ گزیں جہاں آگئے وہیں لوگ مشتعل ہو جاتے تھے۔ لیکن بنارس میں نہیں ہوئے۔ وہاں بھی پناہ گزیں آئے۔ لیکن لوگوں نے ان کی مدد کی اور فسادات نہیں ہونے دیے۔ وہاں کے ڈی ایم اینگلو انڈین تھے۔ میرے خالو ان کے اسٹینو تھے اور میں خالو کے ساتھ رہتا تھا۔ ہم لوگ کینٹونمنٹ ایریا میں رہ رہے تھے۔ لہٰذا وہاں کا ماحول بہت پرسکون تھا۔ لیکن میرے اندر بے چینی بہت تھی۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ میری تعلیم منقطع ہو گئی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ میں اس بات کو سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ لوگ ہجرت کیوں کر رہے ہیں۔ اس کم عمری میں بھی میرا ذہن یہی کہتا تھا کہ ہجرت کرنا ٹھیک نہیں ہے“۔

رضوان اللہ انہی دنوں کلکتہ چلے گئے اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے قیامت صغریٰ دیکھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ”اس وقت فسادات میں بڑی تعداد میں لوگ مارے جا رہے تھے۔ سڑکوں پر بھی انسانی لاشیں پڑی رہتی تھی اور نالوں میں بھی لوگ پھینک دیتے تھے۔ عالم یہ تھا کہ بہت سے نالے لاشوں کی وجہ سے بند ہو گئے تھے۔ اس وقت کلکتہ میں تو بالکل ہی لاقانونیت اور نراج کی کیفیت تھی۔ 13 دنوں تک تو کوئی روکنے، ٹوکنے اور پوچھنے والا ہی نہیں تھا۔ اس کے بعد فوج آئی تو مارشل لا نافذ ہو گیا۔ پھر تو یہ ہوا کہ لوگ جتنا سامان لوٹ کر لے گئے تھے گھروں سے نکال نکال کر سڑکوں پر پھینکنے لگے۔ ہم ایک نئی تہبند خرید کر لائے تھے ہم نے یہ سوچ کر اسے باہر پھینک دیا کہ کہیں ملٹری والے یہ نہ کہیں کہ تم اسے لوٹ کر لائے ہو۔ سڑکیں اشیا سے اٹی پڑی تھیں۔ ایک ماہ تک ٹرام چلنی بند تھی۔ حالانکہ ٹرام وہاں کی لائف لائن تھی۔ ایک ماہ کے بعد جو چلی ہے تو سڑکوں پر سامان کا انبار تھا۔ سوڈا واٹر کی بوتلیں تھیں جنھیں لوگ دکانوں سے نکال کر پھینک کر راہ گیروں کو مارتے تھے۔ سڑکوں اور گلیوں سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ ایک ماہ کے بعد جو پہلی ٹرام ہوڑہ سے سیالدہ تک چلی تو میں اس پر بیٹھ گیا اور سیالدہ تک گیا۔ پانچ چھے کلومیٹر کے اس فاصلے میں میں نے تباہی ہی تباہی دیکھی۔ سیالدہ میں۔۔ میں نے دیکھا کہ ایک سردار فیملی جا رہی تھی لوگوں نے اس کو اپنا ہدف بنا لیا اور مارکر ڈال دیا۔ اس وقت میں پھل منڈی میں تھا۔ میں خوف کی وجہ سے ایک بہت بڑی دکان میں جا کر چھپ گیا۔ لوگوں نے اس کا شٹر گرا دیا۔ کچھ دیر کے بعد فوج ٹینک لے کر آگئی۔ ٹینک ٹھیک اس دکان کے سامنے آکر رکا۔ ایک بندوق بردار جوان اترا اور دکان کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن ٹینک پر بیٹھے ہوئے کمانڈر نے کہا کہ نہیں اندر مت جاو، باہر جس کو دیکھو اس کو شوٹ کر دو۔ فوجی جوانوں نے گشت کرنا شروع کر دیا۔ جو بھی باہر نظر آتا اسے گولی مار دیتے۔ ٹینک کچھ دیر تک باہر کھڑا رہا۔ اتنی دیر تک ہم خوف و دہشت کے عالم میں ڈرائی فروٹ کی بوریوں کے نیچے چھپے رہے۔ ٹینک چلے جانے کے بعد جان میں جان آئی اور پھر ہم باہر نکلے“۔ رضوان اللہ بتاتے ہیں کہ میں نے کلکتہ میں 1947 کے فسادات دیکھے اور 1964 کے فسادات بھی دیکھے۔ دونوں بدترین فسادات تھے۔ مسلمانوں کے اجڑنے کی بڑی لمبی کہانی ہے۔

قمرالدین اور ان کی اہلیہ

دہلی میں قیام پذیر بلند شہر اتر پردیش کے قمر الدین کے بہت سے عزیز اور رشتے دار پاکستان میں ہیں۔ آزادی کے بعد کچھ دنوں تک آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن اب جبکہ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی بڑھ گئی ہے یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ قمر الدین جون 1986 میں کراچی گئے تھے۔ ان کی اہلیہ ان سے ڈھائی ماہ قبل ہی چلی گئی تھیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ”میری اہلیہ کے ویزا میں کوئی دشواری نہیں ہوئی تھی۔ لیکن جب میں نے ویزا کی درخواست دی تو پاکستانی ہائی کمیشن میں میرا انٹرویو ہوا۔ انٹرویو کرنے والے افسر نے بہت سے سوالات کیے اور کہا کہ تم پاکستان کیوں جانا چاہتے ہو۔ میں نے بتایا کہ میری بیوی ڈھائی ماہ سے وہاں ہیں میں ان کو لینے جا رہا ہوں۔ بڑی مشکل سے مجھے ویزا ملا تھا“۔

وہ اٹاری سے لے کر کراچی تک کے واقعات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”اٹاری میں انٹری آسانی سے ہوگئی۔ لیکن جب ہم اُس پار گئے تو انٹری کرنے والے افسر نے پچاس روپے کا مطالبہ کیا۔ ہم نے کہا کہ کس چیز کے پیسے لے رہے ہو۔ اس نے کہا کہ پاکستان میں داخل ہو رہے ہو اس کے پیسے۔ ہم نہ دینے پر اور وہ لینے پر بضد تھا۔ بہر حال اسے پچاس روپے دیے تب اس نے انٹری کی۔ ہمارے پیچھے ایک مولانا تھے۔ ان سے بھی اس نے پیسے مانگے۔ انھوں نے دینے سے منع کر دیا اور کہا کہ ہم آپ لوگوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ افسر نے یہ کہتے ہوئے ان کا پاسپورٹ پھینک دیا کہ دعائیں مت کیجیے پیسے دیجیے۔ بہر حال ان کو بھی پیسے دینے پڑے“۔

قمر الدین کہتے ہیں کہ ”اب جو حالات ہیں ان میں آنا جانا مشکل ہے۔ تقسیم کا زخم آج بھی بہت گہرا ہے۔ اس لکیر نے عزیزوں اور رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے۔ اس کے لیے وہ سیاست دانوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ہی لوگ اپنے رشتے داروں سے نہیں مل پاتے۔ جی تو بہت چاہتا ہے کہ وہاں سے لوگ آئیں یہاں سے لوگ جائیں۔ لیکن اب حالات بہت نازک ہو گئے ہیں۔ پاکستان جانے والے کو شک کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ اب تو ہم لوگ پاکستان میں رہنے والے اپنے عزیزوں کی خوشی میں شامل ہو پاتے ہیں نہ ہی غم میں“۔

ایک آنکھ نے بچا لیا

ہمارے آبائی وطن اترپردیش سے بھی بہت سے لوگوں نے پاکستان ہجرت کی تھی۔ ہمارے دادا مرحوم نواب بخش اس وقت کے بہت سے واقعات ہم لوگوں کو بتاتے رہتے تھے۔ جب ان سے ایک بار ہم لوگوں نے پوچھا کہ آپ لوگ پاکستان کیوں نہیں گئے تو انھوں نے کہا کہ اس وقت زبردست مارکاٹ چل رہی تھی۔ لوگوں کا بہت خون بہا تھا۔ خوف کی وجہ سے ہم لوگ گھروں سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ جاتے کیسے۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت لوگ پاکستان کے حق میں خوب نعرے بناتے تھے۔ تعلیم یافتہ حضرات کے نعرے الگ ہوتے تھے اور عام لوگوں کے الگ۔ انھوں نے بتایا کہ عام لوگوں میں یہ نعرہ بہت مقبول تھا ” ہاتھ میں دستی منہ میں پان، چل میرے گوئیاں پاکستان“۔ (گوئیاں مقامی زبان میں دوست کو کہتے ہیں)۔

انھوں نے بتایا کہ تقسیم کے کچھ دنوں کے بعد جب ماحول تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو پولیس ایسے لوگوں کی سرگرمی سے تلاش کرنے لگی جن کے بارے میں شبہ ہوتا کہ وہ یہاں سے پاکستان چلے گئے تھے اور پھر چوری چھپے واپس آگئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہمارے گاوں، لوہرسن بازار، ضلع بستی میں پیش آیا۔ ایک شخص کے گھر جن کا نام فاروق تھا، ایک رشتے دار آئے ہوئے تھے۔ وہ برآمدے میں چارپائی پر آرام فرما تھے کہ دھڑدھڑاتے ہوئے پولیس والے آگئے۔ انھوں نے ان کو جکڑ لیا۔ اس سے قبل کہ کوئی کچھ سمجھ پاتا، پولیس والے ان کو لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ انھوں نے شور مچایا تو محلے کے لوگ اور پھر پورے گاوں کے لوگ اکٹھے ہوگئے۔

لوگوں نے پولیس والوں سے پوچھا: ”ارے انہیں کیوں لے جا رہے ہو“؟۔

یہ پاکستان سے بھاگ کر آیا ہے، ہم لوگ بہت دنوں سے اس کی تلاش میں تھے“۔ پولیس والوں نے جواب دیا۔

گاوں والوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ لوگ جانتے تھے کہ ان کا نام تو بخش اللہ ہے، یہ تو کبھی پاکستان گئے ہی نہیں تو بھاگ کر آنے کا کیا سوال ہے۔ لوگوں نے پولیس کے بیان کی تردید کی اور احتجاج کیا۔ انھوں نے کہا کہ آپ لوگ غلط کام کر رہے ہیں۔ یہ تو یہیں کے ہیں پاکستان سے کیسے آئیں گے۔

پولیس والوں نے کہا: ”ہمارے پاس ان کی تصویر ہے اور ہم نے ان کو پکڑنے سے پہلے چھپ چھپ کر تصویر سے ان کا چہرہ ملایاہے“۔

لوگوں نے کہا: ”لاو ذرا ہم لوگ بھی تصویر دیکھیں“۔

گاوں والوں نے تصویر دیکھی تو ہکا بکا رہ گئے۔ بالکل ان سے ملتی جلتی تصویر تھی۔ تصویر والا شخص بھی ایک آنکھ کا نابینا تھا اور یہ بھی ایک آنکھ کے نابینا تھے۔ بس کسی کی نظر نے کام کر دیا۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا: ”ارے یہ داہنی آنکھ سے نابینا ہیں اور تصویر کی بائیں آنکھ کانی ہے“۔

پولیس والوں نے بھی غور سے دیکھا اور تب ان کی سمجھ میں آیا کہ اگر چہ شباہت میں مماثلت ہے مگر یہ وہ آدمی نہیں جس کی انھیں تلاش تھی۔ پولیس والے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے وہاں سے چلے گئے اور اس طرح ایک بے قصور شخص بچ گیا۔ ورنہ اس کو جیل ہو جاتی۔