بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ سے متعلق بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے بیان پر پیدا ہونے والا تنازع ختم نہیں ہو سکا۔
مشرقی لداخ میں چین اور بھارت کی افواج کے درمیان ہونے والی جھڑپوں سے متعلق بھارتی وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ نہ تو کوئی بھارتی علاقے میں داخل ہوا ہے اور نہ ہی ہماری کسی چوکی پر کسی کا قبضہ ہوا ہے۔
وزیرِ اعظم مودی کا یہ بیان بھارت اور چین کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدہ صورت حال سے متعلق منعقدہ کُل جماعتی کانفرنس کے موقع پر سامنے آیا تھا۔
نریندر مودی کا بیان سامنے آنے کے بعد حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے متعدد رہنما اس پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے بھارتی وزیرِ اعظم کے بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے پوچھا کہ اگر چینی فوجی بھارتی علاقے میں نہیں آئے تو بھارت کے 20 فوجی کیوں مارے گئے اور کہاں مارے گئے؟
انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ وزیرِ اعظم مودی نے بھارتی زمین چین کو ‘سرنڈر’ کر دی ہے۔
راہل گاندھی نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ وہ نریندر مودی نہیں، سرنڈر مودی ہیں۔
کانگریس کے سینئر رہنما رہنما پی چدمبرم نے سوال کیا کہ اگر چین کے کسی بھی فوجی نے سرحد عبور نہیں کی تھی تو پچھلے ماہ 5 اور 6 مئی کو بھارت اور چین کے درمیان جھڑپ کیوں ہوئی؟
پی چدمبرم کا مزید کہنا تھا کہ رواں ماہ 5 اور 6 جون کو کمانڈرز کی میٹنگ کس مسئلے پر ہوئی؟۔
ایک اور کانگریس رہنما منیش تیواری نے کہا کہ کیا بھارتی فوجی چین کے علاقے میں گئے تھے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب بھارت کے مطابق لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کیا ہے۔ کیا ہمارے اتنے جاں بازوں نے بلا وجہ جان دی۔
Your browser doesn’t support HTML5
کانگریس کی طرف سے سوال اٹھائے جانے کے بعد وزیرِ اعظم کے دفتر سے ایک وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ وزیرِ اعظم کے بیان کی شر انگیز تشریح کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بیان کے مطابق جہاں تک ایل اے سی پر مداخلت کا معاملہ ہے۔ تو یہ واضح ہے کہ گلوان وادی میں 15جون کو اس لیے تشدد ہوا کیوں کہ چین سرحد سے آگے آنا چاہتا تھا اور اس نے اس کارروائی سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ کنٹرول کی حقیقی لائن پر بھارتی سرحد کی طرف چین کی موجودگی نہ ہونے سے متعلق وزیرِ اعظم کا بیان فورسز کی شجاعت کے بعد کی صورتِ حال سے متعلق ہے۔
وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق فوجیوں کی قربانی نے سرحد پار تعمیرات اور گلوان میں ناجائز قبضے کی چین کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ کُل جماعتی کانفرنس میں وزیرِ اعظم نے جو کہا ہے۔ اس سلسلے میں جان بوجھ کر غلط باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔
وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری بیان پر کانگریس نے کہا ہے کہ حکومت سچ کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔
دریں اثنا سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے پیر کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے مذکورہ بیان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم مودی کو اپنے الفاظ کے مضمرات کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔
ان کے بقول نریندر مودی کو چین کو یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ ایل اے سی پر موجودہ صورت حال کے تعلق سے اپنے مؤقف کی تائید میں ان کے الفاظ کو استعمال کرے۔
انہوں نے حکومت کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ غلط اطلاع سفارت کاری یا فیصلہ کن قیادت کا متبادل نہیں ہو سکتی۔
تاہم سابق وزیرِ اعظم نے بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے پر زور دیا۔
سینئر کانگریس رہنما کپل سبل نے ایک نیوز کانفرنس کرکے حکومت کے سامنے پانچ سوالات رکھتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم اور ان کے دفتر کا بیان کچھ اور ہے جب کہ وزیرِ خارجہ، وزیرِ دفاع اور فوجی افسران کے بیانات کچھ اور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیٹلائٹ تصاویر اور فوجی اہلکاروں کے بیانات سے واضح ہے کہ چینی فوجی پینگانگ سو کے علاقے میں آٹھ کلومیٹر تک اندر آگئے ہیں۔ جہاں انہوں نے بنکر بنا لیے ہیں اور وہ وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔
حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس معاملے پر پوری طرح وزیرِ اعظم کے ساتھ ہے۔
پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے من موہن سنگھ اور کانگریس کے دیگر رہنماؤں کے بیانات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سیکیورٹی فورسز کی بار بار توہین کرنا اور ان کی شجاعت پر سوال اٹھانا بند کر دینا چاہیے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بحیثیت وزیرِ اعظم سیکڑوں کلو میٹر بھارتی علاقہ چین کے حوالے کیا تھا۔
وزیرِ داخلہ امت شاہ اور دیگر بی جے پی رہنماؤں نے بھی راہل گاندھی اور کانگریس کے رہنماؤں کے بیانات پر تنقید کی اور ان کے بیانات کو ملک مخالف قرار دیا ہے۔
دہلی کے وزیر اعلی اروِند کیجری وال کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارت دو محاذوں پر چین سے لڑ رہا ہے۔ ایک محاذ کرونا وائرس جب کہ دوسرا محاذ سرحد ہے۔ ان کے مطابق یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں ہے۔
سینئر تجزیہ کار ہرتوش سنگھ بل کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کے بیان سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم کے بیان پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور آگے بھی اٹھائے جاتے رہیں گے۔ لیکن عوام میں اس بیان پر جیسا رد عمل ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہو رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس کو جس پُر زور انداز میں وزیرِ اعظم کے بیان کے معاملے کو اٹھانا چاہیے۔ وہ نہیں اٹھا پا رہی۔
ان کے بقول حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتیں بھی خاموش ہیں۔ جو علاقائی جماعتیں ریاستوں میں برسرِ اقتدار ہیں۔ وہ اپنی حکومت چلانے کے لیے مرکزی حکومت پر بہت زیادہ منحصر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مودی حکومت ذرائع ابلاغ کو اپنے حق میں کرنے کے فن میں ماہر ہے۔ اسی لیے جو بات عوام کے سامنے جانی چاہیے، وہ نہیں جا پا رہی۔
ان کے خیال میں وزیرِ اعظم کے موجودہ بیان سے ان کی ساکھ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس وقت ملک میں چین کے خلاف کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اس معاملے پر عوام حکومت کے ساتھ ہیں۔