بھارتی ریاست آسام میں پولیس نے کم عمر لڑکیوں سے شادی کرنے یا ان سے شادی کروانےکے الزام میں ایک کریک ڈاؤن کے دوران 1800ے زیادہ مردوں کو گرفتار کرلیا ہے جو ریاست کے وزیر اعلیٰ کے مطابق اس طریقہ کا رکے خلاف ایک مسلسل مہم کا آغازہے۔
ہمانتا بسوا سرما نے رائٹرز کو بتایا کہ پولیس نے گرفتاریاں جمعرات کی رات شروع کی تھیں، اور مزید گرفتاریوں کا امکان ہے، ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے مندروں اور مساجد میں ایسی شادیوں کو رجسٹر کروانے میں مدد کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا، ’’کم عمری میں ما ں بننے کی بنیادی وجہ بچپن کی شادیاں ہی ہیں، جس کے نتیجے میں ماں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘
بھارت میں 18 سال سے کم عمر کی شادی غیر قانونی ہے لیکن اس قانون کی کھلے عام دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ بھارت میں دنیا میں سب سے بڑی تعداد میں نابالغ دلہنیں ہیں جن کی تعداد تقریباً 22 کروڑ تیس لاکھ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے اپنی 2020 کی ایک رپورٹ میں کہاہے کہ بھارت میں ہر سال تقریباً ڈیڑھ کروڑ کم عمر لڑکیوں کی شادی ہو جاتی ہے۔
ریاست کے وزیر اعلیٰ سرما نے کہا،’’مسلمانوں سے لے کر ہندوؤں، عیسائیوں اور قبائلی لوگوں سے لے کر چائے کے باغوں کی برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں تک، تمام مذاہب اور برادریوں سے تعلق رکھنے والے مرد ہیں جو اس گھناؤنے سماجی جرم کے ارتکاب پر گرفتار ہوئے ہیں۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے مزید کہا کہ آسام حکومت نے چار ہزار سے زیادہ لوگوں کے خلاف بچوں کی شادی سے متعلق مقدمات درج کیے ہیں۔
(یہ اسٹوری رائٹرز کی رپورٹ پر مبنی ہے)