بھارت کی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کا حکومتی اقدام قانونی طور پر درست قرار دے دیا ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے پیر کی صبح اتفاقِ رائے سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ دفعہ 370 ایک عارضی انتظام تھا جسے ختم کرنے کا اختیار صدر کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ نے اس سے متعلق لگ بھگ 20 درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔
واضح رہے کہ چار سال قبل اگست 2019 میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مرکزی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ اس خطے کو دو حصوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا تھا۔ ان دونوں علاقوں کو مرکزی حکومت کے ماتحت علاقے یعنی یونین ٹیریٹری قرار دیا گیا تھا۔
اگست 2019 میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد وزیرِ اعظم نریندر مودی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ مناسب وقت پر کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کر دی جائے گی۔
پیر کو سنائے گئے فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک کے آئین کے تمام انتظامات جموں و کشمیر پر نافذ ہو سکتے ہیں۔ دفعہ 370 ون (ڈی) کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے۔
عدالت نے لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے مرکز کے زیرِ انتظام خطہ قرار دینے کے فیصلے کو بھی جائز قرار دیا۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ وہ جموں و کشمیر میں 30 ستمبر 2024 تک انتخابات کرائے۔ انتخابات جمہوریت کا اہم حصہ ہیں ان کو معطل نہیں کیا جا سکتا۔ جموں و کشمیر میں پچھلا الیکشن 2014 میں ہوا تھا۔
'یہ کشمیر اور لداخ کے بھائیوں کے لیے اُمید کی کرن ہے'
فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا کہ یہ فیصلہ کشمیر اور لداخ کے عوام کے لیے اُمید کی کرن ہے، ان کے خوابوں کو پورا کرنے کا ہمارا فیصلہ اٹل ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ترقی کے ثمرات نہ صرف آپ تک پہنچیں گے بلکہ اس کے فوائد معاشرے کے ان دوسرے کمزور طبقات تک بھی پہنچیں جو دفعہ 370کی وجہ سے خسارے میں رہے۔
نریندر مودی کے مطابق یہ فیصلہ ایک روشن مستقبل کا وعدہ اور ایک مضبوط اور زیادہ متحد بھارت بنانے کے ہمارے اجتماعی عزم کا ثبوت ہے۔
فیصلے کے مطابق بھارت کی مرکزی حکومت کے ہر فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح مرکزی حکومت بھی ریاستی حکومت کے اختیارات استعمال نہیں کر سکتی۔ حکومت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے قوانین میں ترامیم کی ہیں۔
بھارت کی حکومت اور بی جے پی کا مؤقف ہے کہ دفعہ 370 ایک عارضی آئینی شق تھی جسے بھارتی صدر صدارتی فرمان کے ذریعے منسوخ کر سکتے تھے اور پانچ اگست کو ایسا ہی کیا گیا۔
جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے پر زور
عدالت نے حکومت کو حکم دیا گیا ہے کہ کشمیر کی ریاستی حیثیت جلد از جلد بحال کی جائے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ جب جموں و کشمیر کی ریاست حیثیت بحال ہو گی تو اس میں دوبارہ لداخ کو بھی شامل کر لیا جائے گا یا پھر وہ ایک الگ یونین ٹیریٹری یا وفاق کا زیرِ انتظام علاقہ رہے گا۔
دوران سماعت بھارت کے سولیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کسی بھی وقت کرانے کے لیے تیار ہے۔ لیکن جہاں تک اس کی ریاستی حیثیت کی بحالی کا سوال ہے اس کے لیے مخصوص ٹائم فریم دینا ابھی ممکن نہیں ہے۔
اس سے پہلے بھارت کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے نئی دہلی میں پارلیمان کو ایک سے زیادہ مرتبہ بتایا تھا کہ حکومت جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرنے کے اپنے وعدے پر موزوں وقت پر عمل درآمد کرے گی۔
بھارت کی دوسری ریاستوں کی طرح ایک ریاست
سرکردہ قانون دان اور سابق ہائی کورٹ چیف جسٹس بلال نازکی کہتے ہیں کہ دفعہ 370 نے پانچ اگست 2019 کو انتقال کیا تھا۔ لیکن کچھ لوگ اس کا 'ڈیتھ سرٹیفیکیٹ' چاہتے تھے جو انہیں آج سپریم کورٹ سے مل گیا ہے۔
اُن کے بقول اب اگر جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال بھی کی جاتی ہے تو یہ بھارت کی کسی بھی دوسری ریاست ہی کی طرح ملک کی ایک ریاست ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ دفعہ 370 اور ذیلی شق 35 اے کی منسوخی کے بعد نہ صرف ریاست کا اپنا آئین، جھنڈا اور ترانہ ختم ہو گئے تھے بلکہ بھارتی آئین اور بھارتی پارلیمان کی طرف سے منظور ہونے والے قوانین کا سابقہ ریاست پر مکمل اور براہِ راست اطلاق بھی شروع ہو گیا تھا۔
جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019کے تحت جو 31 اکتوبر 2019 سے نافذ العمل ہوا تھا جموں و کشمیر کو باضابطہ طور پر دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے براہِ راست نئی دہلی کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ان کی انفرادی آئینی حیثیت ختم کردی گئی تھی۔
یہ علاقے باضابطہ طور پر یونین ٹیریٹری آف جموں اینڈ کشمیر اور یونین ٹیریٹری آف لداخ کہلائے جانے لگے۔
ان کے لیے سالانہ بجٹ سمیت تمام مالی معاملات نئی دہلی میں پارلیمان طے کرتی ہے اور وہیں ان کے لیے قوانین بھی بنتے ہیں جب کہ وفاق صدرِ ہند کی طرف سے مقرر کردہ سربراہانِ انتظامیہ جو لیفٹننت گورنر کہلاتے ہیں ان کے انتظامی امور چلاتے ہیں۔
جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال ہونے کی صورت میں یہ اختیارات واپس ریاستی حکومت کو ملیں گے۔ ریاست کی منتخب حکومت کی سربراہی وزیر اعلیٰ کرے گا جس کی اپنی کابینہ ہو گی۔
ہیڈ آف دی اسٹیٹ لیفٹننٹ گورنر کے بجائے گورنر کہلائے گا جس کو بھارت کے صدر نئی دہلی میں حکومتِ وقت کی سفارش پر نامزد کریں گے جیسا کہ آئین کے مطابق بھارت کی دیگر ریاستوں میں ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم بھارتی پارلیمان کی طرف سے ملک کے لیے پاس کیے جانے والے قوانین کا دوسری ریاستوں ہی کی طرح جموں و کشمیر پر بھی براہِ راست اطلاق ہو گا اور الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ اور دیگر وفاقی اداروں کا جموں و کشمیر پر دائرہ کار برقرار رہے گا۔
دفعہ 370 کی موجودگی میں بھارتی پارلیمان کی طرف سے پاس کیے جانے والے کسی بھی قانون کو جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کی منظوری کے بغیر ریاست میں نافذ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دفعہ 35 اے کے تحت ریاست میں اراضی اور دوسری غیر منقولہ جائیدادیں خریدنے، سرکاری نوکریاں اور وظائف حاصل کرنے، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔
کشمیر کی سیاسی جماعتوں کا ردِعمل
سابق وزیرِ اعلٰی اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے فیصلے پر کہا کہ کشمیر کے عوام کو ہمت نہیں چھوڑنی چاہیے، ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
'ایکس' پر اپنی پوسٹ میں محبوبہ مفتی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھارت کے تصور کی نفی ہے۔
سابق وزیرِ اعلٰی عمر عبداللہ نے فیصلے پر ردِعمل دیتے ہوئے فیض احمد فیض کا ایک شعر پوسٹ کیا۔
سابق وزیرِ اعلٰی غلام نبی آزاد نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں کوئی بھی اس فیصلے سے خوش نہیں ہے۔
جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین اور سابق وزیر سجاد غنی لون نے کہا کہ "سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوس کن ہے۔ دفعہ 370کو بھلے ہی قانونی طور پر مٹا دیا گیا ہو لیکن یہ ہمیشہ ہماری سیاسی خواہشات کا حصہ بنا رہے گی۔"
انہوں نے کہا کہ جہاں تک جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کا تعلق ہے سپریم کورٹ نے اس کی توثیق تو کر دی ہے۔ لیکن ملک میں اس سے پہلے کسی ریاست کے ساتھ ایسا کیا گیا ہو اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی اور یوں اس معاملے سے اپنا دامن جھاڑ لیا گیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے جموں و کشمیر یونٹ کے صدر رویندر رائنا نے کہا "ہماری عدالتیں آزاد ہیں اور ہمارے بہترین عدالتی نظام کی پوری دنیا تسلیم کرتی ہے۔"
اُن کا کہنا تھا کہ "میں سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ اس سے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکمت، دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کی تصدیق ہوئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو دل سے تسلیم کریں اور اس معاملے پر مزید سیاست کرنے سے گریز کریں۔"
اس دوران محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے الزام لگایا کہ پولیس نے انہیں ان کے اپنے اپنے گھروں میں نظر بند کر دیا ہے۔ لیکن جموں و کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنز منوج سنہا نے یہ کہہ کر اس کی تردید کی کہ کسی بھی شخص کو گرفتار کیا گیا ہے اور نہ کوئی گھر میں نظر بند ہے۔
انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات پر زور
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ میں شامل جسٹس سنجے کشن کول نے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی رپورٹس کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔
سنجے کشن کول نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ ریاست میں 1980 کے بعد اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی رپورٹس کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور اس کے لیے مصالحتی کمیٹی تشکیل دی جائے۔
سرینگر کے رہائشی جسٹس کول نے اپنی سبک دوشی سے 15 دن قبل 1980 کے بعد جموں و کشمیر کے عوام پر ہونے والے مبینہ مظالم کے بارے میں جذباتی نوٹ لکھا۔
انھوں نے کہا کہ فوج کا کام دشمنوں سے لڑنا ہے نہ کہ ریاست کے لا اینڈ آرڈر کو سنبھالنا۔ وہاں آرمی کے داخلے نے اپنی زمینی سچائیاں تشکیل کیں اور وہاں کے مردوں، عورتوں اور بچوں نے اس کی بھارتی قیمت ادا کی۔
انھوں نے مزید کہا کہ شورش پسندی کی وجہ سے عوام کے ایک حصے نے وہاں سے نقل مکانی کی اور صورتِ حال ایسی ہو گئی کہ فوج کو بلانا پڑا اور ملک کو ایک خطرہ درپیش ہو گیا۔