بھارت کی سپریم کورٹ نے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث روزمرہ کے معمولات متاثر ہونے پر بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے دارالحکومت نئی دہلی اور گردونواح میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک پہنچنے پر حکومتی اقدامات کا ناکافی قرار دیتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا ان حکومتوں نے اس فضائی آلودگی میں عوام کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے؟
پیر کو بھارت میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس ارون مشا نے ریمارکس دیے کہ دہلی ہر سال ایسی صورتِ حال سے دوچار ہوتا ہے لیکن ہماری حکومتوں نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومتیں محض دکھاوا کر رہی ہیں۔ ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالی جا رہی ہے۔
SEE ALSO: نئی دہلی میں خطرناک حد تک فضائی آلودگی، اسکول بندعدالت نے پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش میں فصلوں کی باقیات یا ڈنٹھل جلانے کا سخت نوٹس لیا اور کہا کہ یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔ حکومتوں نے اس سے نمٹنے کے لیے متبادل انتظامات نہیں کیے۔
سپریم کورٹ نے اترپردیش، پنجاب اور ہریانہ کے چیف سکریٹریز کو بدھ کے روز طلب کیا ہے۔
نئی دہلی میں اسموگ کے ڈیرے
دہلی اور نواحی علاقوں میں فضائی آلودگی خطرناک حد تک پہنچی ہوئی ہے۔ اگر چہ اتوار کے مقابلے میں پیر کے روز حالات کچھ بہتر رہے لیکن اب بھی صورتِ حال خطرناک ہے۔
حکام کے مطابق اس وقت آلودگی کی سطح گزشتہ تین برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ بیشتر علاقوں میں فضا پر 'اسموگ' کی سفید چادر تنی ہوئی ہے۔ متعدد علاقوں میں ایئر کوالٹی انڈیکس 999 پوائنٹ تک پہنچ گیا ہے جسے پانچ سو سے اوپر خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔
SEE ALSO: نئی دہلی کی آلودہ فضا، سزائے موت کےبرابر ، ماہرین صحتدہلی ایئر پورٹ پر کم دکھائی دینے کی وجہ سے بہت سی پروازوں کا رخ موڑ دیا گیا۔ حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ گھروں سے غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں۔ نئی دہلی میں اسکول بھی پانچ نومبر تک بند کر دیے گئے تھے۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے کہا کہ پنجاب اور ہریانہ میں فصلوں کی باقیات جلانے کی وجہ سے دہلی کی یہ حالت ہوئی ہے۔ آلودگی کی سطح میں اضافے کی وجہ نئی دہلی خود بھی ہے لیکن اس میں زیادہ حصہ پنجاب اور ہریانہ کا ہے۔
انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر کے کے گرگ نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ اس صورت حال سے سب سے زیادہ پریشانی بچوں، معمر افراد اور بیماروں کو ہے۔ انہیں سانس لینے میں دشواری ہے اور آنکھوں میں جلن اور پانی بہنے کی شکایات عام ہیں۔
آلودگی پر قابو پانے کے لیے دہلی میں ایک بار پھر طاق اور جفت نمبر پلیٹوں کے فارمولے کے تحت گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں۔ 2016 میں پہلی بار اس فارمولے کو نافذ کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے 15 لاکھ گاڑیاں سڑکوں سے باہر ہیں۔
لیکن سپریم کورٹ نے اس پر سوال اٹھایا ہے اور پوچھا ہے کہ نجی گاڑیوں کو روکا جا رہا ہے جبکہ ٹیکسی اور آٹو رکشا پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
کیجری وال حکومت آلودگی پر قابو پانے کے لیے سڑکوں پر پانی کے چھڑکاو سمیت دیگر اقدامات کر رہی ہے۔
مرکزی حکومت دہلی، پنجاب اور ہریانہ حکومتوں کے ساتھ صورت حال رپر نظر رکھے ہوئے ہے۔