|
بھارت کی سپریم کورٹ نے ہندوؤں کی مذہبی یاترا ’کانوَڑ یاترا‘ کے راستے میں پڑنے والے ہوٹلوں، ڈھابوں اور چائے خانوں پر مالکوں اور ملازموں کے نام لکھنے کے اترپردیش کی حکومت کے حکم پر عبوری حکم امتناع جاری کر دیا ہے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ نام لکھنے کے لیے کسی پر دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا۔ وہ صرف کھانے کے آئٹم کے نام لکھ سکتے ہیں۔
عدالت نے اترپردیش، اتراکھنڈ اور مدھیہ پردیش کی حکومتوں کو نوٹس جاری کیا ہے۔ عدالت اس معاملے پر اب 26 جولائی کو سماعت کرے گی۔
یاد رہے کہ اترپردیش میں مظفر نگر اور اتراکھنڈ میں ہریدوار کی پولیس نے 20 جولائی کو یاترا کے راستے میں پڑنے والے تمام ہوٹلوں اور ڈھابوں سے کہا تھا کہ وہ مالکوں اور ملازموں کے نام اور ان کے موبائل نمبر لکھیں۔ بعد ازاں یہ حکم پوری ریاست میں نافذ کر دیا گیا۔
اس حکم کے بعد مذکورہ راستے پر تمام دکان داروں، ڈھابوں اور ہوٹلوں کے مالکوں نے اپنے اور ملازمین کے نام درج کر دیے ہیں اور دکان کے بورڈ پر موٹے موٹے حروف میں نام لکھ دیا گیا ہے۔ بہت سے دکان داروں نے بڑے بڑے بورڈ لگا کر نام لکھے ہیں۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق پھلوں کی ریڑھیوں، حجام کی دکانوں اور یہاں تک کہ پنکچر جوڑنے والوں سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنا نام لکھیں اور انھوں نے اپنی دکانوں پر اپنا نام لکھوا دیا ہے۔
حزبِ اختلاف اور انسانی حقوق تنظیمیوں کی تنقید
اس سرکاری حکم پر انسانی حقوق کے کارکنوں، حزبِ اختلاف کے رہنماؤں، حکومت میں شامل کئی حلیف جماعتوں اور قانونی و سماجی ماہرین کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی تھی۔
ایک نجی تنظیم ’ایسوسی ایشن فار پروٹکشن آف سول رائٹس‘ (اے پی سی آر) اور ترنمول کانگریس (ٹی یم سی) کی رکن پارلیمان مہوا موائترا نے اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
جسٹس رشی کیش رائے اور جسٹس ایس وی این بھٹی نے اس معاملے پر سماعت کی۔
درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے دکان داروں کو نام لکھنے کی ہدایت سے ان کی شناخت کا بائیکاٹ ہوتا ہے اور یہ چھوٹے دکان داروں کی اقتصادی موت ہے۔
سماعت کے دوران بینچ نے پوچھا کہ نام لکھنے کی ہدایت کیا پریس بیان کے ذریعے دی گئی ہے یا یہ کوئی انتظامی حکم ہے؟ اس پر درخواست گزار کی وکیل سی یو سنگھ نے کہا کہ یوپی انتظامیہ کی جانب سے نام اور موبائل نمبر لکھنے کے لیے دکان داروں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
ان کے بقول کوئی بھی قانون پولیس کو ایسا اختیار نہیں دیتا۔ پولیس کے پاس صرف یہ جانچنے کا اختیار ہے کہ کیسا کھانا دیا جا رہا ہے۔ مالک یا ملازم کا نام ضروری نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی پوچھا کہ یہ حکم لازمی ہے یا رضاکارانہ؟ اس پر وکیل نے کہا کہ پولیس اس حکم کو نافذ کر رہی ہے اور پولیس کی طرف سے خبردار کیا جا رہا ہے کہ اگر کوئی اس حکم پر عمل نہیں کرے گا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ایسی رپورٹس ہیں کہ 2000 اور 5000 روپے کے جرمانے کی بھی بات کی جا رہی ہے۔
'یہ دکان داروں کا اقتصادی بائیکاٹ ہے'
درخواست گزار کی جانب سے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ یہ دکان داروں کا اقتصادی بائیکاٹ ہے۔ ان کے مطابق یہ یاترا تو صدیوں سے چلی آ رہی ہے لیکن پہلے ایسا حکم کبھی جاری نہیں کیا گیا۔
جسٹس بھٹی نے کہا کہ اس معاملے کے تین پہلو ہیں سیکیورٹی، معیار اور سیکولرازم۔ انھوں نے کہا کہ میں اپنا ایک ذاتی تجربہ بتا رہا ہوں۔
اُن کا کہنا تھا کہ "کیرالا میں ایک ویجیٹیرین ہوٹل ہندو چلا رہا ہے اور ایک مسلمان چلا رہا ہے۔ لیکن میں مسلمان کے ہوٹل پر گیا کیوں کہ وہاں صفائی ستھرائی تھی۔ ان کے بقول یہ مکمل طور پر اپنی پسند کا معاملہ ہے۔"
تاہم انھوں نے سوال کیا کہ کیا یاتری چاہتے ہیں کہ انھیں چنیدہ ہوٹلوں سے کھانا ملے۔ کیا وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ غذائی اجناس کسی خاص فرقے کے لوگوں کی جانب سے ہی اگائی جانی چاہئیں۔ ان کے بقول یہ ایک قانونی معاملہ بھی ہے۔
ایک اور سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے کہا کہ مظفر نگر پولیس کی مہر کے ساتھ ایک عوامی نوٹس جاری کیا گیا ہے جو کہ اس کے 'ایکس' ہینڈل پر بھی ہے۔ اس میں دو طرح کی باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک طرف کہا گیا ہے کہ یہ رضاکارانہ ہے اور دوسری طرف کہا گیا ہے کہ اس پر عمل کرنا ہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس حکم کا اثر یہ ہوا کہ کچھ مخصوص برادری کے لوگوں کو ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ پولیس کی مداخلت کے بعد ہوا ہے۔
'مسلمان ملازمین کو نکالنا پڑا'
یاد رہے کہ کئی ہوٹل مالکوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پولیس کے دباؤ کی وجہ سے انھوں نے اپنے مسلمان ملازموں کو عارضی طور پر نکال دیا ہے جس سے ان کی تجارت پر اثر پڑ رہا ہے۔
جب کہ متعدد یاتریوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون سا مسلمان کا ڈھابہ ہے اور کون سا ہندو کا ہے۔ ان کے بقول ہم لوگ تو سب کے ڈھابوں پر کھاتے ہیں اور مسلمان مالکوں کی جانب سے ہمارے ٹھہرنے اور آرام کرنے کے اچھے انتظامات کیے جاتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاست دانوں اور سماجی ماہرین کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ’فورم فار سول رائٹس‘ کے چیئرمین سید منصور آغا نے حکم امتناع کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہ فیصلہ آئین کی روح کے مطابق ہے۔ اگر حکومت کا مذکورہ حکم آئین و قانون کے مطابق ہوتا تو عدالتِ عظمیٰ اتنی جلد اس پر حکم امتناع جاری نہیں کرتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا فیصلہ آئین کے بھی خلاف ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خلاف بھی۔ اس سے سماجی سالمیت کو نقصان پہنچتا ہے۔
ان کے بقول سیاست دانوں کا کام ہے کہ وہ معاشرتی سالمیت کو نقصان نہ پہنچنے دیں۔ لیکن جب ایک سیاسی فیصلے سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو عدالت نے اس پر روک لگا دی۔
انھوں نے اسے یوگی کے حکم کو ایک سیاسی فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ اس وقت حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) میں اندرونی کشمکش چل رہی ہے اور ایک گروپ یوگی کے خلاف ہے۔ لہٰذا وہ خود کو سب سے بڑا ہندوتوا وادی دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور بعض حلقوں سے ان کی حمایت بھی کی جا رہی ہے۔
سماجوادی پارٹی کے سابق رکن پارلیمان جاوید عالم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ حکم سماج کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے مقصد سے جاری کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس پر جو اسٹے دیا ہے ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
ان کے بقول پارلیمانی انتخابات میں ریاست اترپردیش میں بی جے پی کو جو شرمناک شکست ملی اس کو وہ ہضم نہیں کر پا رہی ہے اور اسی لیے وہ مذہبی کی سیاست کر کے اپنی پرانی طاقت واپس پانا چاہتی ہے۔
یاد رہے کہ اس حکم کے خلاف سب سے پہلے سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے آواز بلند کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حکم مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کے مقصد سے جاری کیا گیا ہے۔
مرکز میں حکمراں بی جے پی کی حلیف جماعتوں جنتا دل یونائیٹڈ، راشٹریہ لوک دل اور لوک جن شکتی پارٹی نے بھی فیصلے کی مخالفت کی اور اسے فوراً واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر بی جے پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کانوڑ یاترا کے راستے میں بہت سے مسلمان ہندو ناموں سے ہوٹل چلا رہے ہیں اور وہ نان ویج بھی پکاتے ہیں۔ یاتری ان مخصوص ایام میں نان ویج سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس لیے ان میں کوئی شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں اس لیے یہ حکم جاری کیا گیا ہے۔
بی جے پی ترجمان شہزاد پونہ والا نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے جذبات مجروح نہ ہوں اس کے لیے حلال سرٹی فکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔ لیکن جب ہندوؤں کے جذبات کی خاطر حکم جاری ہوتا ہے تو مخالفت کیوں۔ انھوں نے مخالفت کو منافقت قرار دیا اور کہا کہ سب کو اس کا حق ہے کہ وہ اپنی پسند کا کھانا کھائیں۔
بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امت مالویہ نے بھی یوپی حکومت کے حکم کی مخالفت کرنے پر اپوزیشن پر تنقید کی۔ان کے مطابق ہوٹلوں پر نام لکھنے کی ہدایت سے سیکولرزم کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو جاتا۔