بھارت کی سپریم کورٹ نے ریاست کیرالہ میں واقع 'سبری مالا' مندر میں خواتین کو داخلے کی اجازت دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواستیں سماعت کے لیے منظور کر لی ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال سپریم کورٹ آف انڈیا کے پانچ رکنی بینچ نے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے پر لگ بھگ 800 سال سے عائد پابندی ختم کر دی تھی۔
اس فیصلے کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ قدامت پسند ہندوؤں کا یہ مؤقف رہا ہے کہ 10 سے 50 سال تک کی خواتین ماہواری ایام کے باعث مندر میں نہیں آ سکتیں۔
جمعرات کو سنائے گئے فیصلے میں بھارت کی سپریم کورٹ نے معاملہ لارجر بینچ کے سپرد کرتے ہوئے گزشتہ سال سنائے گئے حکم نامے کو برقرار رکھا ہے، جس کے تحت خواتین کو اب بھی مندر میں داخلے کی اجازت ہے۔
لیکن، گزشتہ سال کے عدالتی فیصلے کے باوجود خواتین کو مندر انتظامیہ کی جانب سے داخلے کی اجازت نہ دینے کی شکایات آتی رہی ہیں۔
سبری مالا مندر کی انتظامیہ نے جمعرات کو سنائے گئے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے خواتین کو مندر سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے۔
خواتین کی پابندی آخر تنازع ہے کیا؟
بھارت میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم خواتین مندر انتظامیہ کے اس اقدام کو صنفی امتیاز قرار دیتی ہیں۔ جمعرات کو بھارت کی سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواستوں کی منظوری کو بھی خواتین کی جانب سے مایوس کن قرار دیا جا رہا ہے۔
مندر کے منتظمین کا یہ مؤقف رہا ہے کہ خواتین پر مندر میں داخلے پر پابندی مندر کے دیوتا لارڈ ایپا نے بذات خود عائد کی تھی۔
بھارت میں بیشتر مندروں میں خواتین کو داخلے کی اجازت ہوتی ہے تاوقتیکہ وہ ماہواری ایام سے نہ گزر رہی ہوں۔ لیکن سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلے پر مکمل پابندی عائد ہے۔
گزشتہ سال ستمبر میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جب خواتین نے مندر میں داخلے کی کوشش کی تھی جب کہ خواتین کو زبردستی روکنے کے واقعات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
ہر سال لاکھوں ہندو عقیدت مند ریاست کیرالہ کے پہاڑ پر موجود اس مندر تک پیدل پہنچتے ہیں۔ یہ زائرین یہاں مذہبی عبادات کے علاوہ 41 روز کے لیے عہد کرتے ہیں کہ وہ اس عرصے کے دوران سگریٹ، شراب اور جنسی تعلقات سے دور رہیں گے۔
دو خواتین مندر میں کیسے داخل ہوئیں؟
رواں سال جنوری میں دو خواتین پولیس کے سیکیورٹی حصار میں مندر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئیں۔ ان خواتین میں 39 سالہ کاناکا درگا اور 40 سالہ بندو امینی شامل تھیں۔
ان خواتین کے داخلے کے بعد بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعتوں کی کال پر ریاست کیرالہ میں ہڑتال کی گئی۔ اس دوران کاروباری مراکز اور دیگر سرگرمیاں بھی معطل رکھی گئیں۔
ان دونوں خواتین کو بھی بعدازاں شدید ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا جب کہ ہنگامہ آرائی کے باعث ایک شخص ہلاک ہوا۔ پولیس نے 100 سے زائد افراد کو حراست میں بھی لیا تھا۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال سنائے گئے فیصلے میں پابندی کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی، صنفی امتیاز پر مبنی اور دستور کی دفعات 14,15 اور 21 کے منافی قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا تھا۔
بھارت کی سپریم کورٹ کی جانب سے نظرِ ثانی کی درخواستیں منظور ہونے کے بعد ایک بار پھر مختلف حلقوں میں اس حساس معاملے پر بحث چھڑ گئی ہے۔