کینیڈا کے ساتھ کشیدگی: بھارتی پنجاب کے شہریوں کو اپنے مستقبل کی فکر

  • بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی کشیدگی کا آغاز علیحدگی پسند سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد سے ہوا۔
  • حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھی اور ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا۔
  • کشیدگی کے بعد بھارتی پنجاب کے شہری پریشان ہیں۔
  • بہت سے کلائنٹس نے رابطہ کیا ہے جو پریشان ہیں کہ اس سب صورتِ حال سے ان کے کینیڈا ہجرت کے منصوبوں پر کیسے اثر پڑ سکتا ہے: امیگریشن وکیل

بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تناؤ بڑھنے کے بعد بھارتی پنجاب میں موجود شہری اس بات پر پریشان ہیں کہ کینیڈا میں کام کرنے، پڑھنے یا خاندان سے ملنے کے منصوبے خطرے میں پڑ جائیں گے۔

کینیڈا میں علیحدگی پسند سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد سے شروع ہونے والے تنازع میں اب دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات انتہائی نچلی سطح پر آ گئے ہیں۔

کینیڈا کا کہنا ہے کہ بھارت کے اعلیٰ ترین سفارت کار قتل کی سازش میں ممکنہ طور پر ملوث ہیں۔ کینیڈا نے اسی بنیاد پر اعلیٰ سفارت کار سمیت چھ بھارتی سفارت کاروں کو بھی ملک بدر کردیا تھا۔

بھارت نے ان الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور جواباً نئی دہلی میں کینیڈا کے قائم مقام ہائی کمشنر سمیت چھ سفارت کاروں کو بے دخل کر دیا ہے۔

اس تمام صورتِ حال پر پنجاب میں موجود بھارتی پریشان ہیں اور وہ دونوں ممالک پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کشیدگی کم کریں۔

کینیڈا میں تقریباً آٹھ لاکھ سکھ موجود ہیں اور 2021 میں بھارت کے بعد یہ دنیا کی دوسری بڑی سکھ کمیونٹی کی جگہ بن گئی تھی۔

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں موجود ایک امیگریشن وکیل کرن ایس ٹھکرال کہتے ہیں بہت سے کلائنٹس نے ان سے رابطہ کیا ہے جو پریشان ہیں کہ اس سب صورتِ حال سے ان کے کینیڈا ہجرت کے منصوبوں پر کیسے اثر پڑ سکتا ہے۔

ان کے بقول ابھی قانونی پوچھ گچھ کے معاملا ت میں کوئی بڑی کمی نہیں دیکھی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی طلبہ ان افراد میں شامل ہیں جو اس اثر کو سب سے زیادہ محسوس کر رہے ہیں۔

حالیہ برسوں میں کینیڈا کے بین الاقوامی طلبہ کا سب سے بڑا گروپ بھارتی شہریوں کا ہی رہا ہے اور 2022 میں 41 فی صد اسٹوڈنٹ پرمٹس حاصل کیے گئے۔ ان طلبہ میں زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے ہوتا ہے۔

SEE ALSO: کینیڈا اور بھارت میں سفارتی کشیدگی کیوں بڑھ رہی ہے؟

واضح رہے کہ بین الاقوامی طلبہ کے ذریعے ہر سال کینیڈا کی یونیورسٹیز کے لیے 16 ارب ڈالر آتے ہیں۔

پنجاب کے دارالحکومت چندی گڑھ سے تعلق رکھنے والی طالبہ انیتا کہتی ہیں کہ ہم تعلیم حاصل کرنے اور وہاں آباد ہونے کے لیے کینیڈا جانا چاہتے ہیں۔ لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے کیوں کہ وہاں جانے کے خواہش مند طلبہ کو مشکلات کا سامنا ہے۔

امیگریشن کے وزیر مارک ملر نے جنوری میں خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا تھا کہ بھارتیوں کے لیے کینیڈین اسٹڈی پرمٹس میں گزشتہ سال کے آخر میں تیزی سے کمی آئی اور سفارتی تناؤ سے مستقبل میں اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

چندی گڑھ کے ڈی اے وی کالج میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر کنول پریت کور کہتی ہیں کہ یہ ایسی چیز ہے جس کے دونوں ملک متحمل نہیں ہو سکتے کیوں کہ ہم ایک دوسرے پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

ان کے بقول یہ طلبہ کو واقعی کنارے پڑ لا کھڑا کرتا ہے کیوں کہ ان کا مستقبل کینیڈا کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔