ایران کے بڑی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے ہونے والے سمجھوتے کے بعد اسے حاصل ہونے والے سرمائے کی وجہ سے ایران کے مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر اپنے اثرو رسوخ کے لیے رویہ میں شاید کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔
امریکہ کے ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار کا کہنا ہے کہ اضافی رقم کو روایتی فورسز میں استعمال کرنے کی بجائے ایسے شواہد موجود ہیں کہ تہران کی توجہ درپردہ جنگوں میں فورسز کی مدد اور ان کی قیادت کرنے کے لیے خصوصی آپریشنز پر جاری ہے۔
امریکہ کی خصوصی آپریشنز کی فورسز کے وائس کمانڈر لیفٹینٹ جنرل تھامس ٹراسک نے منگل کو واشنگٹن میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ "ایسا ہو سکتا ہے کہ ایران دفاعی شعبے میں ڈالروں کا اضافہ اپنے نیٹ ورک کو بڑھانے اور اسے وسیع کر سکتا ہے۔"
ٹریسک نے مزید کہا کہ "ہم نے ان کے بارے میں ایسے شواہد دیکھے ہیں کہ انہوں نے آئی آر جی سی ( اسلامی پاسداران انقلاب کور) کے ساتھ شام میں کام کرنے والے افسران اور یونٹس کو وہاں سے نکال لیا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ "ہم ان پراکسی گروپوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے اور اب ایران کی پہنچ شام اور یمن سے پار افریقہ، جنوبی امریکہ اور یورپ تک ہو گئی ہے۔"
2015ء میں ایران کے بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے بعد ایران کو 50 سے 150 ارب ڈالر کے ان اثاثوں تک رسائی مل گئی جو منجمد کیے گئے تھے۔ اس معاہدے کے بعد ایران کے لیے اپنی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے سرمایہ کے حصول کی راہ بھی ہموار ہو گئی۔
اس معاہدے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ایران اس رقم کا بڑا حصہ اپنی فوج کو بڑھانے اور مشرق وسطیٰ میں اپنے اثرو رسوخ میں اضافہ کرنے میں استعمال کر سکتا ہے۔
ایران کی شام میں بشار الاسد کی حکومت کی مدد کے باوجود امریکی فوجی عہدیداروں کو ایسے شواہد نہیں ملے یہ رقم تہران کی روایتی فورسز کو بہتر کرنے کے لیے مختص کی گئی ہے۔
اگرچہ امریکہ کے انٹیلی جنس اداروں کے جائزوں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ایران اپنی " نئی قسم کی دفاعی صلاحیتوں" کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے جن میں بیلسٹک میزائل، کروز میزائل اور مسلح ڈرون بھی شامل ہیں تاہم امریکہ کے فوجی عہدیداروں کو ایسی صورت حال کا امکان کم نظر آتا ہے۔
ٹریسک نے امریکن انٹرپرائز انسٹیٹوٹ کی ایک تقریب میں کہا کہ "اس کے لیے بہت زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ اس کے لیے نہایت اہم بنیادی ڈھانچے کو تعمیر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم ابتدائی طور پر ان غیر روایتی جنگ کی پراکسی کے نیٹ ورک کے خلاف منصوبہ بندی کریں گے جسے ایران اپنی حکومت کے لیے ایک بفرزون بنانے کے لیے آگے بڑھا رہا ہے۔"
امریکہ کے انٹلیجنس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایران پہلے ہی سے شام میں موجود اپنی فورسز کی مدد کے لیے تقریباً 10 ہزار شیعہ ملیشیاء جنگجوؤں کو تربیت دے رہا ہے جن کا تعلق عراق، افغانستان اور پاکستان سے ہے۔
امریکہ کے وزیر دفاع جم میٹس نے گزشتہ ماہ سعودی عرب کے دورے کے دوران کہا تھا کہ "جہاں بھی آپ اس خطے میں کوئی مسئلہ دیکھتے ہیں اس کے پیچھے ایران ہے۔ ہمیں ایران کی طرف سے ایک اور ملک کو غیر مستحکم کرنے اور لبنان کے حزب اللہ (گروپ) کی طرح کا ایک ملیشیاء قائم کرنے کی کوششوں پر قابو پانا ہوگا۔"