انڈونیشی پولیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ کٹر اسلامی گروپوں کی جانب سے چھاپوں اور تشدد پرمبنی کارروائیاں بند کرانے کے لیے اقدامات کریں گے۔انہوں نے یہ وعدہ بدھ کے روز انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ ایک ملاقات میں کیا۔ پولیس چیف کا کہناتھا کہ پچھلے چند ماہ کے دوران کچھ کٹر اسلام پسند تنظیموں نے بعض سیاسی پارٹیوں اور اقلتیوں کی تقریبات اور بعض مذہبی اجتماعات پر حملے کر کے ان میں رخنہ اندازی کی۔
لاپتا افراد اور تشدد کانشانہ بننے والے لوگوں کے حقوق سے متعلق تنظیم کے عہدے دار حامد عثمان کا کہنا ہے کہ اسلامی گروپوں کی جانب سے تشدد کے ایسے کئی واقعات کے سلسلے میں بظاہر پولیس کی کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔
انہوں نے ایک کٹر تنظیم اسلامک ڈیفنڈرز فرنٹ کا خاص طورپرحوالہ دیا۔ ان کا کہناتھا کہ اس تنظیم نے صحت کی دیکھ بھال سے متعلق ایک ریلی کو منسوخ کرنے کے لیے دباؤ ڈلا کیونکہ ان کے خیال میں اس کی قیادت کالعدم انڈونیشی کمیونسٹ پارٹی کے پاس تھی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس گروپ نے ہم جنس پرستوں کی کانفرنس کا انعقاد رکوانے کے لیے ہوٹلوں پر حملے کیے۔
حامد عثمان نے گرجاگھروں اور دوسری مذہبی تنظیموں پرحملوں میں ملوث دیگراسلامی گروپوں کا حوالہ بھی دیا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حامد عثمان اور انسانی حقو ق کے دوسرے کارکنوں اور پارلیمنٹ کے کچھ ارکان نے انڈونیشی پولیس کے عہدے داروں کے ساتھ ملاقات کی۔
عثمان کا کہناتھا کہ ہمارا خیال ہے کہ تشدد کے یہ واقعات قانون نافذ کرنے والے اداروں، بالخصوص پولیس کی عدم موجودگی کے باعث ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے پولیس سے رابطہ کیا ہے۔ ہم نے پولیس کے سربراہ پر زور دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کریں اور سلسلے وار پرتشدد واقعات روکنے کے لیے کوئی ٹھوس پالیسی بنائیں۔
حامد عثمان کا کہناتھاکہ انسانی حقوق کے کارکنوں نے پولیس پر زور دیا کہ وہ مذہی آزادی ،قانون کی حکمرانی اور اقلیتوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کے حق کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں۔
انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا کی قومی پولیس کے سربراہ جنرل بام بانگ ہندرسو دانوری نے یہ تسلیم کیا کہ بعض جگہوں پر مقامی پولیس ان کارروائیوں کو اس لیے نظرانداز کرتی رہی ہے کہ کہیں انہیں اسلام دشمن نہ سجھ لیا جائے۔ تاہم پولیس سربراہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت کارروائی کریں گے، خاص طورپر رمضان کے دوران ، کیونکہ اس ماہ کے دوران انتہاپسند گروپ شراب خانوں اور الکحل فراہم کرنے والے ہوٹلوں پر حملے کرتے رہے ہیں۔
پولیس چیف نے انسانی حقوق کے کارکنوں سے کہا کہ اگر آئندہ کوئی پولیس اہل کار اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام رہاتو اسے برطرف کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ مذہبی کشیدگی کم کرنے اور اعتدال و برداشت کے رویوں کے فروغ کے لیے مسلمان اور عیسائی مذہبی راہنماؤں کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔