امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اعلان پر بین الاقوامی برادری کا فوری ردِ عمل سامنے آیا ہے، جس اقدام سے اسرائیل فلسطین تشدد پھر سے بھڑک سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، انتونیو گئیٹرس نے عالمی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملاتے ہوئے، بدھ کے روز ’’تحمل اور برداشت‘‘ اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔
اُنھوں نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’جب سے میں اقوام متحدہ کا سکریٹری جنرل بنا ہوں، اُسی روز سے میں نے یکسوئی کے ساتھ کسی یکطرفہ اقدام کی مخالفت کی ہے، جس سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین امن کے مستقبل پر کوئی حرف آتا ہو‘‘۔
بقول اُن کے، ’’یروشلم انتہائی اہمیت کا معاملہ ہے جسے دونوں فریق کو براہِ راست بات چیت کے ذریعے حل ہونا چاہیئے، جو سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کے عین مطابق ہو، جس میں دونوں فریق کو فلسطینی اور اسرائیل کی جائز تشویش کو مدِ نظر رکھنا ہوگا‘‘۔
گئیٹرس نے مزید کہا کہ ’’یہ بات میرے علم میں ہے کہ یروشلم بے شمار لوگوں کی دل کی دھڑکن کا معاملہ ہے، صدیوں سے ایسا ہی ہے اور یہ ہمیشہ اتنا ہی اہم رہے گا‘‘۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہا کہ ’’یہ بڑی پریشانی کا باعث لمحہ ہے۔ میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ دو ریاستی حل کا کوئی متبادل نہیں۔ اس کا کوئی ’پلان بی‘ نہیں ہے‘‘۔
بدھ کی شام گئے اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ بولیویا، مصر، فرانس، اٹلی، سنیگال، سویڈن، برطانیہ اور یوراگئے کے ملکوں پر مشتمل وفود نے سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس طلب کرنے کی التجا کی ہے؛ جس میں سکریٹری جنرل سے کہا گیا ہے کہ وہ بریفنگ دیں؛ جو رواں ہفتے کے اختتام سے پہلے دی جائے گی۔
فلسطینی راہنما، محمود عباس نے کہا ہے کہ یروشلم کے بارے میں ٹرمپ کا اعلان ’’دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ وہ امن عمل میں اپنے کردار سے دستبردار ہو رہے ہیں‘‘۔
فلسطین کے چوٹی کے مذاکرات کار، صائب عریقات نے کہا ہے کہ’’یہ قدم وقت سے پہلے فیصلہ دینے، اپنی بات منوانے اور مذاکرات کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے؛ اور میں سمجھتا ہوں کہ آج رات صدر ٹرمپ نے کسی امن عمل میں کوئی کردار ادا کرنے کی راہ سے امریکہ کو الگ کر لیا ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ فلسطین کی مرکزی کونسل اپنا ہنگامی اجلاس طلب کر رہی ہے، جس میں اس تقریر پر غور کیا جائے گا، تمام دستیاب ’آپشنز‘ کا جائزہ لیا جائے گا اور متعدد معاملات سے متعلق مناسب فیصلہ کیا جائے گا‘‘۔
اعلان سے قبل، استنبول سے ’وائس آف امریکہ‘ نے خبر دی کہ بدھ کے روز ترک صدر رجب طیب اردوان اور اردن کے شاہ عبداللہ دوئم کے درمیان ہونے والی بات چیت میں امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے امکانی معاملے پر بھی گفتگو ہوئی۔ صدارتی محل کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو دیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’’دونوں سربراہان نے اس معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا‘‘۔
اردوان نے کہا کہ ’’اگر یروشلم سے متعلق غلط اقدام لیا گیا تو اس سے اسلامی دنیا کے جذبات بھڑک اٹھیں گے۔ اس سے امن کے امکانات کی راہ بند ہوجائے گی اور نئے تناؤ اور جھڑپوں کا سبب پیدا ہوگا‘‘۔